وَيَنصُرَكَ اللَّهُ نَصْرًا عَزِيزًا
اور آپ کو ایک زبردست مدد دے۔
[٣] صلح حدیبیہ میں اللہ کے چار احسانات :۔ اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار چیزیں عطا فرمائیں۔ (١) سابقہ اور آئندہ لغزشوں کی معافی، (٢) اتمام نعمت، اتمام نعمت سے مراد یہ ہے کہ آئندہ اب مسلمانوں پر ہنگامی فضا مسلط نہ رہ سکے گی اور وہ اپنی جگہ ہر طرح کے خوف اور بیرونی مداخلت سے محفوظ و مامون رہ کر پوری طرح اسلامی تہذیب وتمدن اور اسلامی قوانین و احکام کے مطابق آزادانہ زندگی بسر کرسکیں گے اور اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ بجا لاسکیں گے، (٣) اس مقام پر آپ کو سیدھا راستہ دکھانے کا مطلب آپ کو فتح و کامرانی کی راہ دکھانا ہے۔ یعنی اس فتح مبین کے نتیجہ میں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وہ راہ ہموار کردی جس سے تمام اسلام دشمن طاقتیں مغلوب ہوتی جائیں اور (٤) ﴿نَصْرًا عَزِیْزًا﴾ سے مراد ایسی مدد ہے جو بظاہر دشمن کو اپنی فتح نظر آرہی ہے مگر حقیقت میں وہی اس کی جڑ کاٹ دینے والی اور مغلوب کرنے والی ہے۔ حدیبیہ میں پانی کی قلت اور آپ کے معجزات :۔ اس مقام پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر کچھ اور بھی احسان فرمائے۔ اسلامی لشکر یہاں بیس دن سے بھی زیادہ قیام پذیر رہا۔ اس دوران پانی کی شدید قلت واقع ہوگئی۔ چنانچہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ سخت پیاسے ہوگئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک چھاگل تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے وضو کیا۔ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پوچھا : کیا ماجرا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس نہ وضو کے لئے پانی ہے اور نہ پینے کے لئے۔ بس یہی پانی ہے جو آپ کی چھاگل میں ہے۔ یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ اس چھاگل میں رکھ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلیوں سے پانی چشموں کی طرح بہنے لگا۔ چنانچہ ہم سب لوگوں نے پانی پیا اور وضو بھی کیا سالم (راوی) نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا : اس دن تم کتنے آدمی تھے؟ جابر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر لاکھ بھی ہوتے تو بھی وہ پانی ہمیں کفایت کرجاتا ہم تو صرف پندرہ سو آدمی تھے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) دوسرا واقعہ سیدنا براء رضی اللہ عنہ بن عازب بیان کرتے ہیں کہ حدیبیہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ چودہ سو یا زیادہ آدمی تھے۔ ایک کنوئیں پر اترے اور اس کا سارا پانی کھینچ ڈالا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر عرض کیا کہ پانی نہیں رہا۔ اب کیا کریں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کنوئیں پر تشریف لا کر اس کی منڈیر پر بیٹھے اور فرمایا اس کے پانی کا ایک ڈول لاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا لب اس میں ڈال دیا اور اللہ سے دعا کی۔ پھر فرمایا : ساعت بھر اس سے پانی نہ نکالنا۔ اس کے بعد اس کنوئیں کے پانی سے آدمیوں نے اپنے آپ کو اور سب جانوروں کو سیراب کرلیا۔ پھر وہاں سے چل کھڑے ہوئے۔ (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب غزوۃ الحدیبیۃ) بارش کو سیاروں سے منسوب کرنے والا کافر ہے :۔ اس کے بعد اللہ کی رحمت سے بارش ہوگئی اور مسلمانوں نے پانی ذخیرہ بھی کرلیا۔ چنانچہ زید بن خالد جہنی کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ میں ہمیں صبح کی نماز پڑھائی اور رات کو بارش ہوچکی تھی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا : تم جانتے ہو کہ تمہارا پروردگار اللہ عزوجل کیا فرماتا ہے؟ صحابہ نے عرض کیا : اللہ اور اس کا رسول ہی خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ آج صبح میرے کچھ بندے مومن ہوئے اور کچھ کافر۔ جس نے یہ کہا کہ یہ بارش اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہوئی۔ وہ میرا مومن ہے اور ستاروں کا منکر اور جس نے کہا کہ یہ بارش فلاں ستارے کے فلاں نچھتر میں داخل ہونے سے ہوئی اس نے میرے ساتھ کفر کیا اور ستاروں کا مومن ہے۔ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب یستقبل الامام الناس اذاسلم)