سورة محمد - آیت 36

إِنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ ۚ وَإِن تُؤْمِنُوا وَتَتَّقُوا يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْأَلْكُمْ أَمْوَالَكُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

واقعی زندگانی دنیا صرف کھیل کود ہے (١) اور اگر تم ایمان لے آؤ گے اور تقوٰی اختیار کرو گے تو اللہ تمہیں تمہارے اجر دے گا اور تم سے تمہارے مال نہیں مانگتا (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] دنیا دار کے لئے دنیوی زندگی کھیل تماشا ہے :۔ یعنی یہ دنیا بس دلفریبیوں کا مجموعہ ہے۔ جس میں انسان زیادہ سے زیادہ مال و دولت اکٹھی کرنے کی ہوس رکھتا ہے اور مرتے دم ہی سب کچھ یہیں چھوڑ جاتا ہے۔ لہٰذا تمہیں آخرت کی کمائی کی فکر کرنی چاہئے جو دائمی اور پائیدار ہے۔ اور اس کے مقصد کے حصول کے لئے وہ تم سے تمہارے سارے اموال کا مطالبہ نہیں کرتا۔ وہ تو خود غنی ہے اور ساری مخلوق پر خرچ کرتا ہے اسے تمہارے اموال کی کیا پروا یا ضرورت ہے۔ اگر کچھ تھوڑا سا مال تمہیں جہاد کی خاطر خرچ کرنے کو کہتا ہے تو اس میں تمہارا اپنا ہی فائدہ ہے۔ چنانچہ مسلمانوں کو تھوڑے ہی دن اپنی گرہ سے پیسہ خرچ کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے کئی ملک فتح کرادیئے۔ اور جتنا مسلمانوں نے خرچ کیا تھا اس سے سو سو گناہ زیادہ اموال غنیمت کی صورت میں ہاتھ لگ گیا۔ اموال غنیمت نے مسلمانوں کی معاشی تنگدستی کو آسودگی میں تبدیل کردیا۔ چنانچہ فتح خیبر کے بعد مہاجرین نے انصار کو کھجوروں کے وہ درخت واپس کردیئے جو انہوں نے مدینہ آنے پر شراکت کے طور پر انصار سے لئے تھے۔ پھر اس کے بعد مسلمانوں کی معاشی آسودگی بڑھتی ہی گئی۔