أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُم مُّصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُم مِّثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّىٰ هَٰذَا ۖ قُلْ هُوَ مِنْ عِندِ أَنفُسِكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
(کیا بات ہے) کہ جب تمہیں ایک ایسی تکلیف پہنچی کہ تم اس جیسی دو چند پہنچا چکے (١) تو یہ کہنے لگے یہ کہاں سے آ گئی؟ آپ کہہ دیجئے کہ یہ خود تمہاری طرف سے ہے (٢) بیشک اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔
[١٦١] منافقین کی تو بات ہی الگ ہے۔ اکابر صحابہ کو چھوڑ کر مسلمان بھی یہ سمجھ رہے تھے کہ جب ہم حق کی خاطر لڑ رہے ہیں بلکہ اپنا دفاع کر رہے ہیں اور اللہ کا رسول بہ نفس نفیس ہم میں موجود ہے تو کافر ہم پر فتح پا ہی نہیں سکتے۔ پھر جب شکست سے دو چار ہونا پڑا تو انہیں سخت صدمہ بھی ہوا اور حیرانی بھی ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے جواب میں فرمایا : کہ اللہ تعالیٰ نے بدر کے میدان میں تمہیں فتح عظیم عطا فرمائی تھی۔ تم نے اپنے اس موجودہ نقصان سے کافروں کا دگنا نقصان کیا تھا اور اس وقت تم کمزور بھی تھے تو اللہ اگر اس حال میں تمہیں فتح عطا فرماسکتا ہے تو وہ تمہیں شکست بھی دلوا سکتا ہے۔ کیونکہ وہ ہر چیز پر قادر ہے۔ [١٦٢]احد میں شکست کےا سباب:۔ رہی یہ بات کہ تمہیں شکست سے کیوں دوچار ہونا پڑا ؟ تو اس کے اسباب بھی تمہارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ تم نے صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیا، بعض کام تقویٰ کے خلاف کئے۔ اللہ کے رسول کے حکم کی نافرمانی کی، مال کی طمع میں مبتلا ہوئے، آپس میں نزاع و اختلاف کیا، پھر اب یہ کیوں پوچھتے ہو کہ یہ مصیبت کہاں سے آگئی؟