سورة محمد - آیت 4

فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً حَتَّىٰ تَضَعَ الْحَرْبُ أَوْزَارَهَا ۚ ذَٰلِكَ وَلَوْ يَشَاءُ اللَّهُ لَانتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَٰكِن لِّيَبْلُوَ بَعْضَكُم بِبَعْضٍ ۗ وَالَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَلَن يُضِلَّ أَعْمَالَهُمْ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

تو جب کافروں سے تمہاری مڈ بھیڑ ہو تو گردنوں پر وار مارو۔ (١) اور جب ان کو اچھی طرح کچل ڈالو تو اب خوب مضبوط قیدو بند سے گرفتار کرو (٢) (پھر اختیار ہے) کہ خواہ احسان رکھ کر چھوڑ دو یا فدیہ (٣) لے کر چھوڑ دو یہی حکم ہے اور (٤) اگر اللہ چاہتا تو (خود) ہی ان سے بدلہ لے لیتا (٥) لیکن اس کا منشا یہ ہے کہ تم میں سے لے لے، ( ٦) جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کردیے جاتے ہیں اللہ ان کے اعمال ہرگز ضائع نہ کرے گا۔ (٧)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥] دو سابقہ تمہیدی آیات کے بعد اب مسلمانوں کو جنگ سے متعلق ہدایات دی جارہی ہیں اور ان سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس سورۃ کے نزول سے بیشتر مسلمانوں کو جنگ کرنے کی اجازت تو مل چکی تھی مگر تاحال کوئی معرکہ پیش نہیں آیا تھا۔ مسلمانوں کو جنگ کی اجازت کے سلسلہ میں جو پہلی آیت نازل ہوئی وہ سورۃ الحج کی آیت نمبر ٣٩ ہے پھر اس سلسلہ میں سورۃ البقرۃ کی آیات نمبر ١٩٠ تا ١٩٣ ہیں۔ اور یہ ہدایات حسب ذیل ہیں۔ ١۔ جب معرکہ کارزار پیش آئے تو پورے جوش و خروش اور جرأت ایمانی سے ڈٹ کر کافروں کا مقابلہ کرو اور رسول اللہ نے فرمایا : لوگو! دشمن سے بھڑنے کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگو لیکن اگر بھڑ جاؤ تو پھر ثابت قدم رہو اور جان لو کہ بہشت تلواروں کے سائے تلے ہے۔ (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب لاتتمنّوا لقاء العدو) ٢۔ جنگ کے متعلق عام ہدایات :۔ تمہارا اصل ہدف یہ ہونا چاہئے کہ دشمن کی جنگی طاقت اور کفر کی کمر توڑ دی جائے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ توجہ کافروں کے قتل کی طرف رکھو۔ ہاں جب لڑائی کا زور ٹوٹ جائے اور دشمن ہتھیار رکھ دے تو اس وقت ان کے بچے کھچے آدمیوں کو قید کرو۔ اس سے پہلے قید نہ کرنے لگ جاؤ۔ ٣۔ جنگی قیدیوں کے متعلق ہدایات :۔ جو قیدی تمہارے ہاتھ لگ جائیں ان سے متعلق دو صورتوں میں سے کوئی ایک صوت اختیار کی جائے یا تو انہیں احسان رکھ کر چھوڑ دیا جائے یا ان کا فدیہ لے لیا جائے اس سے معلوم ہوا کہ قیدیوں کو قتل کرنا عام قاعدہ نہیں۔ تاہم قتل کی ممانعت بھی نہیں کی گئی۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ائمہ کفر کے قیدیوں کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے۔ جن کا جرم صرف یہی نہیں ہوتا کہ وہ جنگ میں شامل ہوئے تھے۔ بلکہ ان کے اور بھی کئی سخت قسم کے جرائم ہوتے ہیں جن کی وجہ سے وہ قتل کے مستحق ہوتے ہیں۔ چنانچہ فتح مکہ کے بعد قیدیوں کے عفو عام کے باوجود چار شخصوں کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا کہ انہیں قتل کردیا جائے۔ جنگ بنو قریظہ کے بعد محصور یہود نے سیدنا سعد بن معاذ کو ثالث تسلیم کرتے ہوئے ہتھیار ڈالے۔ تو سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں یہ فیصلہ دیا کہ ان کے نوجوانوں کو قتل کردیا جائے۔ بچوں اور عورتوں کو لونڈی غلام بنا لیا جائے۔ اور ان کے اموال کو مجاہدین میں تقسیم کردیا جائے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا سعد کے اس فیصلہ کو بالکل درست قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ان کا یہ فیصلہ آسمانوں والے پروردگار کے فیصلہ کے مطابق ہے چنانچہ انہیں قتل کردیا گیا ان کا جرم صرف یہ نہ تھا کہ وہ جنگی قیدی تھے بلکہ اصل جرائم یہ تھے وہ کئی بار سمجھوتہ کے معاہدہ کی عہد شکنی کرچکے تھے اور جنگ احزاب میں عین جنگ کے درمیان دشمن کی اتحادی فوجوں سے مل کر مسلمانوں کو سخت مشکل حالات سے دوچار کردیا تھا۔ اسارٰی بدر کے متعلق مشورہ اور فدیہ :۔ اسارٰی بدر کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے مشورہ کیا۔ سیدنا عمررضی اللہ عنہ نے یہ مشورہ دیا کہ یہ قیدی چونکہ صنادید کفر ہیں۔ لہٰذا انہیں قتل کردینا ضروری ہے۔ مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے عام قاعدہ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کی رائے کے مطابق فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا اس پر مسلمانوں پر عتاب نازل ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی منشا سیدنا عمر کے فیصلہ کے مطابق تھی۔ اس لیے کہ بدر کے قیدی محض جنگی قیدی نہ تھے۔ بلکہ اسلام اور مسلمانوں کے بدترین دشمن اور مسلمانوں اور پیغمبر اسلام کے خلاف بہت سی معاندانہ سرگرمیوں میں مصروف رہتے تھے۔ ان تصریحات سے معلوم ہوا کہ امام وقت کو اس عام قاعدہ کے استثناء کا اس وقت حق حاصل ہوتا ہے جبکہ جنگی قیدی اور بھی کئی جرائم میں ملوث ہوں اور امام وقت کو انہیں نہ احسان رکھ کر چھوڑنا چاہئے نہ فدیہ لے کر بلکہ انہیں قتل کردینا چاہئے کیونکہ قتال فی سبیل اللہ کا سب سے اہم مقصد کفر کی کمر توڑنا ہے۔ قیدیوں پر احسان کی مختلف صورتیں :۔ پھر احسان رکھ کر چھوڑنے کی کئی صورتیں ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ ان سے کسی طرح کی کوئی خدمت نہ لی جائے اور اگر حالات اجازت دیں تو محض اللہ کی رضا اور اسلام کی اخلاقی برتری قائم کرنے کے لیے انہیں چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ فتح مکہ کے دن آپ نے عفو عام کا اعلان کردیا تھا۔ یا جنگ حنین کے بعد جنگی قیدیوں کی تقسیم کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل ہوازن کی ایما پر انہیں آزاد کردیا تھا۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ان کی جان بخشی اس صورت میں کی جائے کہ انہیں مسلمانوں میں تقسیم کردیا جائے اور مسلمانوں کو تلقین کی جائے کہ ان سے بہتر سے بہتر سلوک کیا جائے۔ جیسا کہ جنگ حنین کے بعد پہلے آپ نے ایسے قیدیوں کو مسلمانوں میں تقسیم کردیا تھا۔ علاوہ ازیں اور بھی کئی مواقع پر آپ نے جنگی قیدیوں کو مجاہدین میں تقسیم فرمایا تھا۔ تیسری یہ کہ اگر انہیں قید کرنا ہی پڑے تو ان سے بہتر سلوک کیا جائے اور یہ قید دائمی اور مستقل نہ ہونی چاہئے۔ اور چوتھی یہ کہ ان سے جزیہ لے کر ذمی بنا لیا جائے اور انہیں اسلامی مملکت میں آزادانہ رہنے کا حق دیا جائے۔ جیسا کہ اہل نجران سے معاملہ کیا گیا تھا۔ فدیہ کی مختلف صورتیں :۔ اور فدیہ کی بھی کئی صورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ ان سے زر فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے۔ جیسا کہ اساری بدر سے لیا گیا تھا اور یہ زر فدیہ ہر شخص سے اس کی حیثیت کے مطابق لیا جائے گا۔ دوسری یہ کہ ان قیدیوں سے پیسہ کی بجائے کوئی اور خدمت لے کر انہیں چھوڑ دیا جائے جیسا کہ اسی اساری بدر کے موقعہ پر جن لوگوں کے پاس زر فدیہ کی رقم نہیں تھی۔ ان سے یہ خدمت لی گئی کہ ایسا ہر قیدی مسلمانوں کے دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دے اور تیسری یہ کہ جنگی قیدیوں کا آپس میں تبادلہ کرلیا۔ اس کے لیے یہ ضروری نہیں کہ ایک مسلمان کے بدلے ایک کافر چھوڑا جائے بلکہ ایک دفعہ آپ نے دو مسلمانوں کے بدلہ میں ایک کافر چھوڑا تھا۔ یہ ہیں وہ مختلف صورتیں جو اس آیت کے اس مختصر سے جملہ میں داخل ہیں۔ ان تمام صورتوں میں سے جو صورت بھی حالات کے مطابق اور مسلمانوں اور اسلام کے حق میں بہتر ہو، امام وقت وہی صورت اختیار کرسکتا ہے۔ [٦] یعنی اللہ تعالیٰ یہ کرسکتا تھا کہ باطل پرستوں اور اسلام دشمنوں پر بجلی کی کڑک یا زلزلہ بھیج کر یا سیلاب کا پانی چھوڑ کر انہیں تباہ و برباد کر دے۔ جیسا کہ وہ پہلی سرکش اقوام پر ایسے عذاب بھیج چکا ہے اور اس طرح وہ ان سے تمہارا بدلہ لے لے۔ لیکن جب تک معرکہ حق و باطل قائم نہ ہو اور میدان کارزار گرم نہ ہو تب تک بندوں کا امتحان نہیں ہوسکتا کہ کون کس درجہ میں اسلام سے مخلص اور جرأت ایمانی رکھتا ہے۔ نیز کافروں میں سے کتنے لوگ ان تنبیہی کاروائیوں سے سبق حاصل کرتے ہیں اور اس مہلت سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو اللہ نے انہیں دے رکھی ہے۔