فَاصْبِرْ كَمَا صَبَرَ أُولُو الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلَا تَسْتَعْجِل لَّهُمْ ۚ كَأَنَّهُمْ يَوْمَ يَرَوْنَ مَا يُوعَدُونَ لَمْ يَلْبَثُوا إِلَّا سَاعَةً مِّن نَّهَارٍ ۚ بَلَاغٌ ۚ فَهَلْ يُهْلَكُ إِلَّا الْقَوْمُ الْفَاسِقُونَ
پس (اے پیغمبر !) تم ایسا صبر کرو جیسا صبر عالی ہمت رسولوں نے کیا اور ان کے لئے عذاب طلب کرنے میں جلدی نہ کرو (١) یہ جس دن اس عذاب کو دیکھ لیں گے جس کا وعدہ دیئے جاتے ہیں تو (یہ معلوم ہونے لگے گا کہ دن کی ایک گھڑی ہی دنیا میں) ٹھہرے تھے (٢) یہ ہے پیغام پہنچا (٣) دینا، پس بدکاروں کے سوا کوئی ہلاک نہ کیا جائے گا۔ (٤)
[٤٨] اولوا العزم انبیاء کون کون سے ہیں :۔ ویسے تو سب انبیاء ہی اولوالعزم ہوتے ہیں تاہم عرف عام میں پانچ ہیں، سیدنا نوح، سیدنا ابراہیم، سیدنا موسیٰ، سیدنا عیسیٰ علیہم السلام اور محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم آپ یہ چاہتے تھے کہ یا تو کفار مکہ ایمان لے آئیں یا پھر اللہ ان پر عذاب نازل کر دے۔ جس کا یہ ہر وقت مطالبہ کرتے رہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے جواب میں فرمایا کہ دیکھ لو اولوالعزم انبیاء نے کتنی مدت اپنے مخالفوں کی ایذا رسانیوں پر صبر کیا تھا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی اس معاملہ میں جلدی نہ کرنا چاہئے اور صبر و برداشت سے کام لینا چاہئے۔ [٤٩] یعنی آج تو عذاب کے لیے جلدی مچا رہے ہیں کہ آتا کیوں نہیں، جب قیامت کو عذاب اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے تو کہیں گے اتنی جلدی عذاب کیوں آگیا۔ ہم تو دنیا میں بس ایک گھڑی ہی ٹھہرے تھے کہ عذاب آگیا ہے۔ ویسے بھی انسان کی فطرت ہے کہ اسے مصیبت کی گھڑیاں تو بڑی طویل محسوس ہوتی ہیں لیکن عیش و آرام میں گزرے ہوئے سال ہاسال بھی چند گھڑیاں معلوم ہوتے ہیں۔ قیامت کا دن کس قدر سخت ہوگا۔ اس کا اندازہ کچھ ان کے جواب سے بھی ہوجاتا ہے۔ [٥٠] یعنی اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اللہ کے عذاب سے تباہ صرف اس کے نافرمان ہی کئے جاتے ہیں۔ جو اللہ کے عذاب کی تنبیہ کو مذاق میں اڑا دیتے ہیں۔