وَاذْكُرْ أَخَا عَادٍ إِذْ أَنذَرَ قَوْمَهُ بِالْأَحْقَافِ وَقَدْ خَلَتِ النُّذُرُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ
اور عاد کے بھائی کو یاد کرو، جبکہ اس نے اپنی قوم کو احقاف میں ڈرایا (١) اور یقیناً اس سے پہلے بھی ڈرانے والے گزر چکے ہیں اور اس کے بعد بھی یہ کہ تم سوائے اللہ تعالیٰ کے اور کی عبادت نہ کرو بیشک میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے خوف کھاتا ہوں (٢)۔
[٣٣] یہاں قوم عاد کا ذکر اس مناسبت سے کیا گیا ہے کہ یہ لوگ قریشی سرداروں سے بھی زیادہ مغرور، متکبر اور سرکش تھے۔ یہ قوم کفار مکہ کی نسبت قدوقامت، ڈیل ڈول اور جسمانی قوت کے لحاظ سے بھی بہت بڑھ کر تھی۔ [٣٤] احقاف قوم عاد کا مسکن :۔ احقاف، حقف کی جمع ہے۔ بمعنی ریت کے بڑے بڑے میلوں میں پھیلے ہوئے ٹیلے۔ یہی علاقہ قوم عاد کا مسکن تھا۔ جو کسی زمانہ میں سرسبز اور شاداب علاقہ تھا۔ قوم عاد نے اسی جگہ زمین دوز مکان بنا رکھے تھے۔ یہ علاقہ جنوبی عرب میں حضرموت کے شمال میں واقع ہے۔ اور آج کل وہاں ریت ہی ریت کے ٹیلے ہیں جو سینکڑوں میل تک پھیلتے چلے گئے ہیں۔ اس علاقہ کو آج کل ربع خالی بھی کہتے ہیں۔ کوئی شخص اس صحرا میں داخل ہونے کی جرأت نہیں کرتا۔ اور جو چیز اس ریت میں گر پڑے وہ بھی ریت میں دھنس کر ریت ہی بن جاتی ہے۔ جیسے کوئی چیز نمک کی کان میں گر پڑے تو وہ بھی نمک ہی بن جاتی ہے۔ [٣٥] اس علاقہ میں ہود علیہ السلام سے پہلے بھی کئی نبی آئے تھے اور بعد میں آتے رہے۔ ان سب کی تعلیم یہی تھی کہ اللہ ہی کائنات کا اور تمہارا خالق اور مالک ہے۔ لہٰذا وہی ہستی عبادت کے لائق ہے۔ صرف اسی کی عبادت کرو۔ کیونکہ اور کسی کے اختیار میں کچھ بھی نہیں ہے۔ اور اگر تم نے اللہ کا حکم نہ مانا، شرک اور اپنی سرکشی سے باز نہ آئے تو تم پر سخت عذاب نازل ہوگا۔