سورة الأحقاف - آیت 15

وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا ۖ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا ۚ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي ۖ إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کی ماں نے اسے تکلیف جھیل کر پیٹ میں رکھا اور تکلیف برداشت کرکے اسے جنا (١) اس کے حمل کا اور اس کے دودھ چھڑانے کا زمانہ تیس مہینے ہے (٢) یہاں تک کہ جب وہ اپنی پختگی اور چالیس سال کی عمر کو پہنچا (٣) تو کہنے لگا اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے (٤) کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤ جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کیا ہے اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہوجائے اور تو میری اولاد کو بھی صالح بنا۔ میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٩] والدین سے بہتر سلوک کے سلسلہ میں سورۃ ئبنی اسرائیل کی آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ کے حواشی ملاحظہ فرمائیے۔ [٢٠] والدہ حسن سلوک کی والد سے زیادہ حقدار ہے :۔ اس آیت میں پہلے ایک دفعہ ماں اور باپ دونوں سے بہتر سلوک کا حکم دیا۔ پھر تین بار صرف ماں کی خصوصی خدمات کا ذکر فرمایا۔ اور اس آیت کی بہترین تفسیر وہ حدیث ہے جو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا : میرے بہتر سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تیری ماں، اس نے دوبارہ پوچھا، پھر کون؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ''تیری ماں'' تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی جواب دیا۔ پھر چوتھی بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا’’تیرا باپ‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من احق الناس بحسن الصحبۃ) [٢١] رضاعت کی مدت شمار اور اس کے نتائج :۔ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣٣ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رضاعت کی پوری مدت دو سال ہے۔ البتہ اگر والدین کسی ضرورت کے تحت اس مدت میں کمی کرنا چاہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح سورۃ لقمان کی آیت نمبر ١٣ میں فرمایا کہ ماں کو دودھ چھڑانے میں دو سال لگ گئے۔ اور اس مقام پر فرمایا کہ حمل اور رضاعت کی مدت تیس ماہ ہے۔ ان سب آیات کو سامنے رکھنے سے درج ذیل مسائل کا پتا چلتا ہے۔ (١) رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس میں کمی ہوسکتی ہے۔ زیادتی نہیں۔ لہٰذا اگر کسی نے دو سال سے زیادہ عمر میں کسی عورت کا دودھ پی لیا ہو تو اس پر احکام رضاعت کا اطلاق نہ ہوگا یعنی وہ احکام جن کا نکاح سے تعلق ہے۔ (٢) حمل کی کم از کم مدت چھ ماہ ہے۔ چھ ماہ سے پہلے بچہ پیدا ہوجائے تو وہ موجودہ خاوند کا نہیں بلکہ کسی اور مرد کا بچہ ہوگا۔ زیادہ واضح الفاظ میں وہ لڑکا ولدالزنا ہوگا۔ اور اس کا وراثت سے بھی کچھ تعلق نہ ہوگا اور بچے کی ماں کو زنا کی حد پڑ سکتی ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ طبی تحقیقات کے مطابق حمل کی کم از کم مدت ٢٨ ہفتے قرار دی گئی ہے۔ اگر یہ تحقیق صحیح ہو تو بھی ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شریعت نے اس مسئلہ کے ہر دو پہلوؤں سے نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اس مدت میں انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہوئے چھ ماہ کی مدت قرار دی ہے۔ چھ ماہ کے بعد بچہ پیدا ہو تو والد یا عورت کا خاوند اس کے نسب سے انکار کرنے کا مجاز نہ ہوگا۔ (٣) رضاعت کی مدت کی بہتر صورت یہ ہے کہ اگر بچہ چھ ماہ بعد پیدا ہو تو رضاعت کی مدت پورے دو سال یا چوبیس ماہ قرار دی جائے۔ اگر سات ماہ بعد پیدا ہو تو ٢٣ ماہ، آٹھ ماہ بعد بعد پیدا ہو تو ٢٢ ماہ اور نو ماہ بعد پیدا ہو تو ٢١ ماہ قرار دی جائے۔ (٤) مدت کا شمار قمری مہینوں کے حساب سے ہوگا شمسی مہینوں سے نہیں۔ [٢٢] پختگی کی عمر کتنی ہے؟:۔ اگرچہ انسان کی جسمانی قوت اور طاقت چالیس سال سے پہلے ہی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تاہم اس میں عقل کی پختگی چالیس سال تک ہی آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انبیاء کو نبوت چالیس سال کی عمر میں یا اس کے بعد عطا کی جاتی رہی۔ البتہ عیسیٰ علیہ السلام اس قاعدہ سے مستثنیٰ ہیں۔ جیسے آپ کی اور بھی کئی باتیں اعجازی حیثیت رکھتی ہیں۔ ویسے ہی نبوت بھی آپ کو تیس سال کی عمر میں عطا ہوئی اور ٣٣ سال کی عمر میں آپ آسمان پر اٹھا لیے گئے۔ [٢٣] یہ انسان کی عقل کی پختگی کی دلیل ہے کہ اسے اپنے پروردگار کے اور اپنے والدین کے احسانات کا احساس ہونے لگتا ہے۔ جس پر وہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور شکر کے لیے اللہ سے توفیق بھی طلب کرتا ہے۔ اور عملی طور پر اللہ کا شکر یوں ادا کرتا ہے اور اس کی توفیق چاہتا ہے جو اللہ کو پسند ہو۔ واضح رہے اللہ تعالیٰ کو وہی اعمال پسند ہیں جو خالصتاً اس کی رضا مندی کے لیے کئے جائیں۔ شریعت کی پابندیوں یعنی اسوہ رسول کے مطابق ہوں۔ ان میں ریا کا شائبہ تک نہ ہو۔ اور بعد میں کوئی ایسا فعل نہ کیا جائے جو اس عمل کو برباد کرنے کا سبب بن جائے۔ [٢٤] سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر خصوصی احسان :۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں صرف سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ ہی ایسے خوش قسمت تھے جو خود بھی مسلمان، ان کے والدین بھی مسلمان اور اولاد بھی مسلمان تھی اور ان سب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت کا شرف حاصل ہوا۔ صحابہ میں یہ خصوصیت اور کسی کو حاصل نہیں ہوئی۔