إِذْ تُصْعِدُونَ وَلَا تَلْوُونَ عَلَىٰ أَحَدٍ وَالرَّسُولُ يَدْعُوكُمْ فِي أُخْرَاكُمْ فَأَثَابَكُمْ غَمًّا بِغَمٍّ لِّكَيْلَا تَحْزَنُوا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَا أَصَابَكُمْ ۗ وَاللَّهُ خَبِيرٌ بِمَا تَعْمَلُونَ
جب کہ تم چڑھے چلے جا رہے تھے (١) اور کسی کی طرف توجہ تک نہیں کرتے تھے اور اللہ کے رسول تمہیں تمہارے پیچھے سے آوازیں دے رہے تھے (٢) بس تمہیں غم پر غم پہنچا (٣) تاکہ تم فوت شدہ چیز پر غمگین نہ ہو اور نہ پہنچنے والی (تکلیف) پر اداس ہو (٤) اللہ تعالیٰ تمہارے تمام اعمال سے خبردار ہے۔
[١٤١]احد کے دن مسلمانوں کوکیاکیاغم پہنچے؟ غما بغم کے کئی معنی ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا معنی رنج کے بدلے رنج کیا جائے یعنی مسلمانوں نے رسول کی نافرمانی کرکے اسے رنج پہنچایا تو اس کے بدلے اللہ نے مسلمانوں کو شکست دے کر انہیں رنج پہنچایا۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ نے تمہیں کئی قسم کے رنج پہنچائے۔ ایک منافقوں کے واپس لوٹ جانے کا، دوسرا شکست کا، تیسرا اپنے شہیدوں کا، چوتھا اپنے مجروحین کا، پانچواں رسول کی شہادت کی خبر کا اور چھٹا اس جنگ کے انجام کا، اور تیسرا معنی یہ کہ اللہ نے جو تمہیں رسول کی شہادت کی افواہ کا غم پہنچایا وہ پہلے تمام قسم کے غموں سے بھاری تھا۔ [١٤٢] خوشی وغمی میں اعتدال کی روش:۔ اس جملہ میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو اپنی ذات پر بھروسہ کرنے کا ایسا ضابطہ بتلایا ہے جو ایک مسلمان کو کسی بھی مشکل کے وقت کم ہمت بننے سے بچاتا ہے۔ جو یہ ہے کہ جو بھی تکلیف یا مصیبت تمہیں پہنچتی ہے وہ پہلے ہی اللہ کے علم میں ہوتی ہے اور صرف وہی تکلیف اور رنج تمہیں پہنچ سکتا ہے جو پہلے سے تمہارے مقدر ہوچکا ہے۔ لہٰذا اس پر افسوس کرنے کے بجائے اللہ پر بھروسہ رکھو اور اسی کی طرف لو لگاؤ وہی تمہاری مشکلات کو حل کرے گا۔ اسی مضمون کو ذرا تفصیل سے سورۃ حدید کی آیت نمبر ٢٣ میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ’’تاکہ جو کچھ تمہارے ہاتھ سے نکل جائے اس پر افسوس نہ کرو اور جب اللہ تمہیں کوئی بھلائی عطا کرے تو اس پر پھولے نہ سمایا کرو۔‘‘ (٥٧: ٢٣) یعنی ایک مومن کی شان یہ ہے کہ وہ نہ تو مصیبت کے وقت ڈگمگاتا اور آس توڑ بیٹھتا ہے اور نہ خوشی کے وقت بھی وہ حد سے زیادہ خوش ہو کر اترانے لگتا ہے بلکہ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر کرنے والا اور معتدل مزاج رکھنے والا ہوتا ہے۔