فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُّبِينٍ
آپ اس دن کے منتظر رہیں جب کہ آسمان ظاہر دھواں لائے گا (١)
[٨] قریش پر قحط کا عذاب :۔ آیت نمبر ١٠ سے نمبر ١٦ تک تفسیر میں مفسرین میں اختلاف ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بڑے زور شور اور یقین کے ساتھ ان آیات کی تفسیر درج ذیل الفاظ میں پیش کرتے ہیں : عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریش نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہ مانی اور شرارتوں پر کمر باندھی تو آپ نے یوں بددعا فرمائی اے اللہ! ان پر سیدنا یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح سات سال کا قحط بھیج کر میری مدد فرما۔ آخر ان پر ایسا سخت قحط نازل ہوا کہ وہ ہڈیاں اور مردار تک کھانے لگے اور نوبت بایں جا رسید کہ ان میں سے اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں آسمان کی طرف دیکھتا تو ایک دھواں سا دکھائی دیتا۔ اس وقت ابو سفیان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا : محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! تمہاری قوم ہلاک ہو رہی ہے، دعا کرو اللہ یہ قحط ختم کر دے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی۔ اور مشرک بھی کہنے لگے : پروردگار ! ہم پر یہ عذاب دور کردے۔ ہم ایمان لاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا۔ دیکھو جب یہ عذاب موقوف ہوا تو یہ لوگ پھر شرک کرنے لگیں گے۔ خیر آپ کی دعا کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے یہ عذاب اٹھا لیا تو وہ پھر کفر شرک کرنے لگے۔ آخر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری۔ ﴿یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ﴾ میں بطشۃ سے مراد بدر کی سزا ہے۔ رہا آخرت کا عذاب تو وہ ان سے کبھی موقوف نہ ہوگا۔ ابن مسعود کہتے ہیں کہ پانچ چیزیں ہیں جو گزر چکیں۔ لزام (بدر میں قیدیوں کی گرفتاری) روم کا دوبارہ غلبہ' بطشۃ' (بدر کی ذلت آمیز شکست) چاند (کا پھٹنا) اور دخان (دھوئیں کا عذاب) (بخاری۔ کتاب التفسیر) دخان مبین سے کون سا دھواں مراد ہے؟:۔ اور سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما آیت نمبر ١٠ میں مذکور دھوئیں سے مراد وہ دھواں لیتے ہیں جو قیامت کے قریب چھا جائے گا اور وہ قیامت کی ایک علامت ہوگا روایات کے مطابق یہ دھواں چالیس دن زمین کو محیط رہے گا۔ نیک آدمی پر اس کا اثر خفیف ہوگا جس سے انہیں زکام سا ہوجائے گا اور کافر و منافق کے لیے یہ دھواں سخت تکلیف دہ ثابت ہوگا۔ یہ دھواں شاید وہ ہی سماوات کا مادہ ہو جس کا ذکر ﴿ثُمَّ اسْتَوٰٓی اِلَی السَّمَاءِ وَہِیَ دُخَانٌ ﴾ میں ہوا ہے اور وہ ﴿یَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَۃَ الْکُبْرٰی اِنَّا مُنْتَقِمُوْنَ ﴾ سے مراد قیامت کا عذاب لیتے ہیں۔ واللہ اعلم بالصواب، تاہم ان آیات میں مذکور واقعات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ اس لیے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کی تفسیر زیادہ راجح معلوم ہوتی ہے۔