سَنُلْقِي فِي قُلُوبِ الَّذِينَ كَفَرُوا الرُّعْبَ بِمَا أَشْرَكُوا بِاللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِ سُلْطَانًا ۖ وَمَأْوَاهُمُ النَّارُ ۚ وَبِئْسَ مَثْوَى الظَّالِمِينَ
ہم عنقریب کافروں کے دلوں میں رعب ڈال دیں گے، اس وجہ سے کہ یہ اللہ کے ساتھ ان چیزوں کو شریک کرتے ہیں جس کی کوئی دلیل اللہ نے نہیں اتاری (١) ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور ان ظالموں کی بری جگہ ہے۔
[١٣٧] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخمی ہونے کے بعد جب مشرکین نے گھیرا ڈالا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نہایت جانبازی سے مشرکین کو منتشر کردیا تو آپ نے ہمت کرکے نہایت دانشمندی اور حربی مہارت سے نقشہ جنگ میں تبدیلی کی اور ثابت قدمی کے ساتھ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ گئے۔ آپ کے اس اقدام سے فوراً جنگ کا نقشہ بدل گیا۔ ابو سفیان نے آپ کو دیکھا تو فوج لے کر پہاڑ پر چڑھنے کی کوشش کی۔ اوپر سے صحابہ نے پتھر برسائے، لہٰذا وہ آگے نہ بڑھ سکا۔ اس طرح شکست خوردہ مسلمان پھر سے برابری کی سطح پر آگئے اور ابو سفیان کو ناکام واپس جانا پڑا۔ معہد خزاعی کا کردار:۔ چونکہ یہ جنگ فیصلہ کن نہ تھی اور اسی حال میں ابو سفیان واپس چلا گیا۔ لہٰذا آپ کو خیال آیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ابو سفیان واپس مڑ کر مسلمانوں پر دوبارہ حملہ کردے۔ لہٰذا آپ نے صحابہ کو تعاقب کا حکم دیا۔ چنانچہ زخم خوردہ اور غمزدہ مسلمانوں میں سے ستر آدمیوں کی ایک جماعت تعاقب کے لیے تیار ہوگئی اور وہ مدینہ سے نکل کھڑے ہوئے اور مدینہ سے آٹھ میل دور حمراء الاسد تک پہنچ گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گمان بالکل درست نکلا۔ ابو سفیان جب مقام روحاء پر پہنچا تو اسے خیال آیا کہ کام تو ناتمام ہی رہ گیا۔ لہٰذا واپس مدینہ چل کر دوبارہ حملہ کرنا چاہئے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ کی مدد مسلمانوں کے شامل حال ہوئی۔ قبیلہ خزاعہ کا رئیس معبد (یہ قبیلہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوا تھا۔ تاہم وہ مسلمانوں کا حلیف اور خیر خواہ ضرور تھا) مسلمانوں کی شکست کی خبر سن کر دلجوئی کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور جب اسے صورت حال معلوم ہوئی تو آپ سے مشورہ کے بعد وہ ابو سفیان کے پاس گیا۔ ابو سفیان نے اسے اپنا خیر خواہ سمجھ کر جب اپنا واپس جاکر حملہ کرنے کا ارادہ ظاہر کیا تو معبد کہنے لگا میں ادھر سے ہی آرہا ہوں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک لشکر جرار لے کر آپ لوگوں کے تعاقب میں آرہے ہیں اور اس لشکر میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو کسی نہ کسی وجہ سے اس معرکہ میں شریک نہ ہوسکے تھے۔ ابو سفیان نے جب یہ قصہ سنا تو اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اپنا ارادہ بدل دیا اور مکہ کی راہ لی۔ [١٣٨]مومن دلیر کیوں ہوتاہے؟ مشرکوں کے مرعوب ہوجانے کی وجہ اللہ تعالیٰ نے یہ بتلائی ہے کہ وہ ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہیں جو مخلوق ہیں اور اپنے بھی نفع و نقصان پر قادر نہیں تو دوسروں کی کیا مدد کرسکتے ہیں ﴿ضَعُفَ الطَّالِبُ وَالْمَطْلُوْبُ﴾ والا معاملہ ہوتا ہے۔ جبکہ مومن صرف ایک اللہ کا پرستار ہوتا ہے جو مدد کرنے پر پوری قدرت رکھتا ہے اور اپنے بندوں کی ضرور مدد فرماتا ہے۔ بشرطیکہ مومن اس کی اطاعت کریں اور اسی پر توکل کریں۔ اللہ پر توکل اور تقدیر الٰہی کا عقیدہ اسے اللہ کے علاوہ باقی سب چیزوں سے بے خوف اور نڈر بنا دیتا ہے۔