وَزُخْرُفًا ۚ وَإِن كُلُّ ذَٰلِكَ لَمَّا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۚ وَالْآخِرَةُ عِندَ رَبِّكَ لِلْمُتَّقِينَ
اور سونے کے بھی اور یہ سب کچھ یونہی سا دنیا کی زندگی کا فائدہ ہے اور آخرت تو آپ کے رب کے نزدیک (صرف) پرہیزگاروں کے لئے (ہی) ہے (١)۔
[٣٤] یعنی دنیا کا مال و دولت، سازو سامان اور سیم و زر، جس کو یہ لوگ کسی انسان کی عظمت کا معیار قرار دے رہے ہیں۔ اللہ کی نگاہ میں اتنی حقیر چیز ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام کافروں کے گھر، ان کے دروازے، مکانوں کی چھتیں، ان کے تخت اور چارپائیاں، ان کی سیڑھیاں غرضیکہ ان کی ایک ایک چیز سونے، چاندی کا بنا دیتا۔ لیکن اس میں یہ خطرہ ضرور تھا کہ تمام انسان ہی کفر کا راستہ اختیار کرلیتے، کیونکہ انسان فطرتاً مال و دولت کے لیے بہت حریص واقع ہوا ہے۔ جبکہ اللہ کی مشیئت یہ ہے کہ کسی کو مال و دولت زیادہ دے کر اور کسی کو کم دے کر ہر طرح سے لوگوں کی آزمائش کرے۔ نیز دنیا میں رزق کی اس کمی بیشی سے ہی اس دنیا کا نظام چل رہا ہے ورنہ مال و دولت تو ایسی حقیر چیز ہے جو حرام خوروں اور خبیث ترین قسم کے انسانوں کے پاس عام لوگوں سے زیادہ پائی جاتی ہے۔ اس مال و دولت کو تم نے بڑائی کا معیار سمجھ رکھا ہے۔ اور کہتے ہو کہ نبوت بھی اس طرح کے کسی بڑے رئیس کے حصہ میں آنا چاہئے تھی؟ [٣٥] یعنی آخرت کی تمام تر نعمتیں صرف متقی لوگوں کے لیے مخصوص ہیں اور دنیا میں بھی انہیں اتنا حصہ مل ہی جاتا ہے جتنا ان کے مقدر میں ہے اور یہ حصہ زیادہ بھی ہوسکتا ہے۔ مگر کافروں کا آخرت میں تو کوئی حصہ نہیں اگر دنیا میں انہیں کچھ زیادہ مال و دولت مل بھی جائے تو پھر بھی بہرحال خسارے میں کافر ہی رہتے ہیں۔