بَلْ مَتَّعْتُ هَٰؤُلَاءِ وَآبَاءَهُمْ حَتَّىٰ جَاءَهُمُ الْحَقُّ وَرَسُولٌ مُّبِينٌ
بلکہ میں نے ان لوگوں کو اور ان کے باپ دادوں کو سامان (اور اسباب) (١) دیا، یہاں تک کہ ان کے پاس حق اور صاف صاف سنانے والا رسول آگیا (٢)،
[٢٧] بات یہ نہیں جو تم کہہ رہے ہو بلکہ اس کے برعکس معاملہ یہ ہے کہ تم نے جان بوجھ کر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی تعلیم کو بھلا رکھا ہے اور ان کی وصیت کی کوئی پروا نہیں کی۔ اللہ نے تمہیں اور تمہارے آباء واجداد کو جو سامان زیست اور نعمتیں عطا کی تھیں ان کے مزوں میں پڑ کر اللہ کی طرف سے بالکل غافل ہوگئے۔ یہ شرکیہ رسوم تمہارے سامان عیش و عشرت کا سہارا بنی ہوئی تھیں۔ جنہیں اب تم چھوڑنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ [٢٨] ﴿رَسُوْلٌ مُّبِیْنٌ﴾ کا ایک مطلب تو یہ ہے کہ یہ رسول تمہیں شرک اور توحید کی راہیں صاف صاف اور کھول کھول کر سمجھانے والا ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ ایسا رسول آیا جس کا رسول ہونا بالکل واضح تھا۔