سورة آل عمران - آیت 142

أَمْ حَسِبْتُمْ أَن تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَعْلَمِ اللَّهُ الَّذِينَ جَاهَدُوا مِنكُمْ وَيَعْلَمَ الصَّابِرِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا تم یہ سمجھ بیٹھے ہو کہ تم جنت میں چلے جاؤ گے (١) حالانکہ اب تک اللہ تعالیٰ نے یہ ظاہر نہیں کیا کہ تم میں سے جہاد کرنے والے کون ہیں اور صبر کرنے والے کون ہیں (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٢٩] جہاد کے ذریعے امتحان :۔ یعنی جنت کے جن اعلیٰ درجات اور مقامات پر اللہ تعالیٰ تمہیں پہنچانا چاہتا ہے کیا تمہارا یہ خیال ہے کہ بس یوں ہی بیٹھے بیٹھے آرام سے وہاں جاپہنچو گے اور اللہ تمہارا امتحان لے کر یہ نہ دیکھے گا کہ جہاد میں حصہ لینے والے اور اس میں ثابت قدم رہنے والے کون کون ہیں۔ جنت کے بلند درجات پر تو وہی لوگ فائز ہوں گے جو اللہ کی راہ میں ہر طرح کی سختیاں جھیلنے اور قربانیاں پیش کرنے کے لیے تیار ہوں۔ یہاں بھی اللہ کے دیکھنے یا جاننے سے وہی مراد ہے جو سابقہ آیت میں مذکور ہوئی یعنی ﴿وَیَتَّخِذَ مِنْکُمْ شُہَدَاۗءَ﴾ کہ مسلمانوں کی پوری جماعت یہ صورت حال بچشم خود ملاحظہ کرے۔ خباب بن ارت اور مشرکین مکہ کی سزائیں:۔ مکی دور میں مسلمانوں پر قریش مکہ کی طرف سے بے پناہ مظالم اور مصائب ڈھائے جارہے تھے۔ حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ ان مصائب سے کچھ گھبرا سے گئے اور چاہا کہ جاکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت فرمائیں کہ جس وقت کی آپ بشارت سناتے ہیں وہ کب آئے گا ؟ چنانچہ وہ خود راوی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا، اس وقت آپ کعبہ کے سایہ میں ایک چادر پر تکیہ لگائے بیٹھے تھے۔ اس زمانہ میں ہم مشرک لوگوں سے سخت تکلیفیں اٹھا رہے تھے۔ میں نے آپ سے عرض کیا کہ آپ اللہ تعالیٰ سے ان مشرکوں کے لیے بددعا کیوں نہیں کرتے؟ یہ سنتے ہی آپ (تکیہ چھوڑ کر) سیدھے بیٹھ گئے اور آپ کا چہرہ (غصے سے) سرخ ہوگیا اور فرمایا : ’’تم سے پہلے ایسے لوگ گزر چکے ہیں جن کے گوشت اور پٹھوں میں ہڈیوں تک لوہے کی کنگھیاں چلائی جاتی تھیں۔ مگر وہ اپنے سچے دین سے پھرتے نہیں تھے اور آرا ان کے سر کے درمیان رکھ کر چلا دیا جاتا اور ان کے دو ٹکڑے کردیے جاتے مگر وہ سچے دین سے نہیں پھرتے تھے اور اللہ ایک دن اس کام کو ضرور پورا کرے گا۔‘‘ (بخاری، باب بنیان الکعبة باب مالقی النبی و أصحابہ من المشرکین بمکۃ) اور ایک روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں۔ ’’مگر تم لوگ تو جلدی مچاتے ہو۔‘‘ گویا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی حضرت خباب بن ارت رضی اللہ عنہ کو صبر و استقلال اور ثابت قدمی کا وہی سبق سکھلایا جو اس آیت میں مسلمانوں کو سکھلایا جارہا ہے۔