أَوْ يُزَوِّجُهُمْ ذُكْرَانًا وَإِنَاثًا ۖ وَيَجْعَلُ مَن يَشَاءُ عَقِيمًا ۚ إِنَّهُ عَلِيمٌ قَدِيرٌ
یا انہیں جمع کردیتا ہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جسے چاہے بانجھ کردیتا ہے وہ بڑے علم والا اور کامل قدرت والا ہے۔
[٧٠] اولاد کے بارے میں انسان کی بے بسی :۔ اس سے پہلی آیت کا آغاز یوں فرمایا کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لیے ہے۔ بالفاظ دیگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کائنات میں جملہ تصرفات صرف اللہ اکیلے کے ہاتھ میں ہیں۔ پھر ان تصرفات کے صرف ایک پہلو کو دلیل کے طور پر پیش فرمایا ہے کہ دیکھ لو انسان اولاد کے بارے میں کس قدر بے بس ہے۔ انسان کی فطری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہو۔ مگر اللہ جسے بانجھ بنا دے یا اولاد نہ دینا چاہے وہ خواہ کتنے ہی جتن کر دیکھے اس کے ہاں اولاد نہیں ہوتی۔ اس کی دوسری خواہش یہ ہوتی ہے کہ اس کے ہاں بیٹے ہوں بیٹیاں نہ ہوں۔ لیکن اللہ بعض لوگوں کو بیٹیاں ہی دیئے جاتا ہے اور اس طرح بعض دفعہ بڑے بڑے متکبروں کی اکڑ توڑ کے رکھ دیتا ہے اور وہ کچھ بھی مداوا نہیں کرسکتے۔ اور کسی کو ایک آدھ لڑکی کی خواہش کے باوجود صرف لڑکے ہی لڑکے دے دیتا ہے کبھی کسی کے ہاں جڑواں بچے پیدا ہوجاتے ہیں اور کسی کے ہاں بیک وقت تین، چار، پانچ بچے بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ بالخصوص جب سے دنیا میں خاندانی منصوبہ بندی کا چرچا شروع ہوا ہے۔ ایسے واقعات بکثرت سامنے آنے لگے ہیں۔ یہ گویا قدرت کی طرف سے خلاف فطرت کام کرنے والوں کے منہ پر ایک طمانچہ ہے۔ الغرض انسان اولاد کی تمنا رکھنے کے باوجود اس مسئلہ میں اس قدر بے بس ہے کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسری ہستی کوئی بت کوئی آستانہ اور کوئی پیر پیغمبر اس کی کچھ مدد نہیں کرسکتے۔ بلکہ پیغمبر اس سلسلہ میں خود بھی ایسے ہی بے بس ہیں جیسے عام انسان مثلاً سیدنا لوط (علیہ السلام) اور سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی بیٹیاں ہی بیٹیاں تھیں۔ بیٹا کوئی نہ تھا۔