وَالَّذِينَ يُحَاجُّونَ فِي اللَّهِ مِن بَعْدِ مَا اسْتُجِيبَ لَهُ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ
اور جو لوگ اللہ تعالیٰ کی باتوں میں جھگڑا ڈالتے ہیں اس کے بعد کہ (مخلوق) انہیں مان چکی (١) ان کی خواہ مخواہ کی حجت اللہ کے نزدیک باطل ہے اور ان پر غضب ہے اور ان کے لئے سخت عذاب ہے۔
[٢٥] دحض کا لغوی مفہوم :۔ اس آیت میں حُجَّۃٌ کے بجائے دَاحِضَۃٌ کا لفظ استعمال ہوا ہے اور دحض کے مفہوم میں تین باتیں پائی جاتی ہیں۔ (١) پھسلنا، (٢) کمزور ہونا اور (٣) زائل ہوجانا، اور یہ دحض الرجل سے مشتق ہے جس کے معنی ہیں کہ پاؤں نے ٹھوکر کھائی اور اپنی جگہ سے پھسل گیا اور داحِضَۃٌ کے معنی میں ایسی دلیل ہے جو حق کے مقابلہ میں اپنے پاؤں پر قائم نہ رہ سکے، پھسل کر کمزور اور زائل ہوجائے، یعنی زائل ہوجانے والی اور بودی دلیل۔ مکہ میں اگر کوئی شخص مسلمان ہوجاتا تو اس کے مشرک دوست اور لواحقین ہاتھ دھو کر اس کے پیچھے پڑجاتے اور اس سے بحثیں اور لڑائی جھگڑے کر کر کے اسے زچ کردیتے اور اس بات پر مجبور کردیتے کہ وہ پھر سے اسلام چھوڑ کر ان کے آبائی دین میں شامل ہوجائے۔ یہ تو انفرادی صورت تھی اور اجتماعی صورت یہ تھی کہ کفار کی مخالفت اور اذیت کے باوجود بھی اسلام پھیل رہا تھا اور مسلمانوں کی تعداد میں دم بدم اضافہ ہو رہا تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے کافر متحد ہو کر میدان میں اتر آئے تھے اور اس دعوت کو روکنے کے لیے کبھی دھمکی، کبھی لالچ، کبھی سمجھوتہ اور کبھی مکمل بائیکاٹ اور کبھی مذاق و استہزاء اور کبھی فضول قسم کے اعتراضات اور بحثوں کے راستے کھولے جارہے تھے۔ اس صورت حال کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ جب سنجیدہ اور عقل مند طبقہ اسلام کے دلائل سے متاثر ہو کر اس کی حقانیت پر ایمان لاچکا ہے اور اللہ کی توحید کو علی وجہ البصیرت تسلیم کیا جاچکا ہے تو اب کافروں کے یہ جھگڑے عبث اور بے کار ہیں۔ یہ جو کچھ بھی چاہیں کرلیں اللہ ان کی سازشوں کو کبھی کامیاب نہ ہونے دے گا اور حق سربلند ہو کے رہے گا۔ البتہ حق کو دبانے کے لیے جتنا زور یہ صرف کر رہے ہیں اتنا ہی اللہ کا غضب ان پر بھڑکتا ہے اور اتنی ہی شدید سزا انہیں دی جائے گی۔