وَلَوْ شَاءَ اللَّهُ لَجَعَلَهُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَٰكِن يُدْخِلُ مَن يَشَاءُ فِي رَحْمَتِهِ ۚ وَالظَّالِمُونَ مَا لَهُم مِّن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
اگر اللہ تعالیٰ چاہتا تو ان سب کو ایک ہی امت کا بنا دیتا (١) لیکن جسے چاہتا اپنی رحمت میں داخل کرلیتا ہے اور ظالموں کا حامی اور مددگار کوئی نہیں۔
[٧] انسان کو اختیار دینے کا نتیجہ اختلاف اور گروہ بندی :۔ اس کی بڑی آسان صورت یہ تھی کہ اللہ انسانوں کو قوت ارادہ و اختیار نہ بخشتا۔ پھر جس طرح کائنات کی باقی سب چیزیں اللہ کی مطیع فرمان ہیں اور ان کی یہ اطاعت اضطراری ہے انسان بھی اسی طرح اللہ کا مطیع فرمان ہوتا۔ اور اختلاف یا فرقوں میں بٹنے کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا۔ مگر اللہ کی مشیئت تو یہ تھی کہ ایک ایسی مخلوق پیدا کی جائے جس کو اختیار دیا جائے اور پھر دیکھا جائے کہ کون اپنے اختیار سے اس کی اطاعت کرتا ہے اور کون نافرمانی کرتا ہے۔ اور یہ اختیار ہی وہ چیز ہے جو اختلاف کا سبب بنتا ہے۔ پھر جو لوگ اپنے اختیار سے اللہ کے فرمانبردار بن جاتے ہیں۔ اللہ انہیں رحمت میں داخل کرلیتا ہے۔ دنیا میں بھی مہربان اور آخرت میں بھی۔ لیکن جو نافرمانی اختیار کرتے ہیں۔ ضروری نہیں کہ دنیا کی زندگی میں ان کا محاسبہ کیا جائے۔ بلکہ آخرت میں ان کا ضرور محاسبہ کیا جائے گا۔ پھر اس دن ان کا کوئی ایسا سرپرست یا مددگار نہ ہوگا جو انہیں ان کے اعمال کی سزا سے بچا سکے۔