إِلَيْهِ يُرَدُّ عِلْمُ السَّاعَةِ ۚ وَمَا تَخْرُجُ مِن ثَمَرَاتٍ مِّنْ أَكْمَامِهَا وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِ ۚ وَيَوْمَ يُنَادِيهِمْ أَيْنَ شُرَكَائِي قَالُوا آذَنَّاكَ مَا مِنَّا مِن شَهِيدٍ
قیامت کا علم اللہ ہی کی طرف لوٹایا جاتا ہے (١) اور جو جو پھل اپنے شگوفوں میں سے نکلتے ہیں اور جو مادہ حمل سے ہوتی ہے اور جو بچے وہ جنتی ہے سب کا علم اسے ہے (٢) اور جس دن اللہ تعالیٰ ان (مشرکوں) کو بلا کر دریافت فرمائے گا میرے شریک کہاں ہیں، وہ جواب دیں گے کہ ہم نے تو تجھے کہہ سنایا کہ ہم میں سے تو کوئی اس کا گواہ نہیں (٣)۔
[٦١] جواب کا رخ اس طرف موڑ دینا جس کا تعلق عملی زندگی سے ہو :۔ اللہ تعالیٰ کی وسعت علم کا یہ حال ہے کہ شگوفہ کے اندر اس کے پھل کے نکلنے تک جو کیفیات گزرتی ہیں اور رحم مادر میں جنین پر جو جو مرحلے پیش آتے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کے علم میں ہیں۔ ایسی ہی علیم ہستی جب یہ خبر دے رہی ہے کہ قیامت یقینی طور پر آنے والی ہے تو تمہیں اس بات پر یقین کرلینا چاہئے۔ رہی یہ بات کہ وہ کب آئے گی تو اس کا علم بھی صرف اللہ کو ہے اور یہ بات بتانا مشیئت الٰہی کے خلاف ہے۔ کیونکہ اس طرح تخلیق انسانی کا مقصد ہی فوت ہوجاتا ہے۔ کافروں کا یہ مشغلہ سا بن گیا تھا کہ وہ بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہی سوال کرتے رہتے تھے تو اس کے جواب میں مختلف مقامات پر مختلف جوابات دیئے گئے ہیں اور ان میں وہ پہلو اختیار کیا گیا ہے جس کا تعلق عملی زندگی سے ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہی دستور تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں کہیں تشریف لے جارہے تھے۔ راستہ میں کسی شخص نے زور سے پکارا : یا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ! قیامت کب آئے گی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا : ’’تجھ پر افسوس! کیا تو نے اس کے لیے کچھ تیاری کرلی ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب البرو الصلۃ والادب۔ باب المرء مع من احب) [٦٢] ﴿ اٰذنّٰکَ﴾ کے معنی ہیں ہم آپ کے گوش گزار کر تو چکے ہیں یعنی قیامت کے دن مشرک لوگ شرک کا انجام دیکھیں گے تو اپنے شرک کا اقرار کرنے کی بجائے صاف مکر جائیں گے۔ بعض علماء نے یہاں شہید سے شاہد مراد لیا ہے۔ یعنی آج ہمیں اپنے معبودوں میں سے کوئی بھی یہاں نظر نہیں آرہا۔