وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَاخْتُلِفَ فِيهِ ۗ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ ۚ وَإِنَّهُمْ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيبٍ
یقیناً ہم نے موسیٰ (علیہ السلام) کو کتاب دی تھی، سو اس میں بھی اختلاف کیا گیا اور اگر (وہ) بات نہ ہوتی (جو) آپ کے رب کی طرف سے پہلے ہی مقرر ہوچکی ہے (١) تو ان کے درمیان (کبھی) کا فیصلہ ہوچکا ہوتا (٢) یہ لوگ تو اسکے بارے میں سخت بے چین کرنے والے شک میں ہیں (٣)
[٥٩] یعنی جو کتاب تورات موسیٰ علیہ السلام کو دی گئی تھی اس میں بھی جامع ہدایات موجود تھیں۔ اور لوگوں نے اس میں اختلاف کیا تھا۔ کچھ ایمان لائے تھے اور بہت سے لوگوں نے اس کی مخالفت شروع کردی تھی۔ بالکل ایسی ہی صورت حال اب قرآن کے معاملہ میں پیش آرہی ہے اور اگر اللہ کی مشیئت میں یہ بات نہ ہوتی کہ یہ دنیا دار الامتحان ہے تو ابھی ان لوگوں کے درمیان فیصلہ چکا دیا جاتا جو اپنے بعض مفادات اور سرداریوں کی بقا کی خاطر دعوت حق کو بہرحال جھٹلانے پر تلے بیٹھے ہیں۔ اور پوری سرگرمیاں اس دعوت کو مٹانے پر صرف کر رہے ہیں۔ جبکہ اصل صورت حال یہ ہے کہ ان کے دل دعوت کو درست تسلیم کرتے ہیں اور انہیں اندر ہی اندر یہ خدشہ کھائے جارہا ہے کہ اگر اسلام کو غلبہ حاصل ہوگیا تو پھر ہماری خیر نہیں۔