وَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا لَا تَسْمَعُوا لِهَٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَغْلِبُونَ
اور کافروں نے کہا اس قرآن کی سنو ہی مت (١) (اس کے پڑھے جانے کے وقت) اور بے ہودہ گوئی کرو (٢) کیا عجب کہ تم غالب آجاؤ (٣)
[٣٣] ابن دغنہ کا ابو بکر رضی اللہ عنہ کو پناہ دینابشرطیکہ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھیں :۔ جو شخص بھی قرآن سنتا تھا تو قرآن کی بات اس کے دل میں اتر جاتی تھی اور یہی بلاکی تاثیر قرآن کا اعجاز تھا جس سے قریش مکہ سخت خائف رہتے تھے۔ اور قرآن سے متعلق انہوں نے تین طرح کے اقدام کئے تھے تاکہ اس کی آواز کو دبایا جاسکے۔ ان میں سے پہلا اقدام تو مسلمانوں پر پابندی تھی کہ وہ قرآن کو اونچی آواز سے نہ پڑھا کریں کیونکہ اس طرح ان کی عورتیں اور بچے متاثر ہوتے ہیں۔ اسی جرم کی پاداش میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر کئی بار حملے ہوئے اور مسلمانوں کی بھی پٹائی ہوئی۔ اسی جرم کی پاداش میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا اور آپ ہجرت کی غرض سے نکل کھڑے ہوئے۔ برک غماد کے مقام پر پہنچے تھے کہ قبیلہ قارہ کا سردار ابن دغنہ انہیں اپنی پناہ میں لے کر واپس مکہ لے آیا۔ سرداران قریش نے اس پناہ کو صرف اس شرط پر منظور کیا کہ آپ قرآن بلند آواز سے نہ پڑھا کریں گے۔ مگر سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ زیادہ دیر اس شرط پر قائم نہ رہ سکے تو قریشی سرداروں نے ابن دغنہ کے پاس جاکر شکایت کی۔ ابن دغنہ نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس آکر انہیں اپنا عہد یاد دلایا اور کہا کہ اگر تم برسرعام قرآن بلند آواز سے پڑھنا نہ چھوڑو گے تو میں تمہاری پناہ سے دستبردار ہوتا ہوں۔ اس کے جواب میں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا : ’’تم اپنی پناہ اپنے پاس رکھو اور میرا معاملہ اللہ کے سپرد ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب الانبیاء۔ باب ہجرۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم ) ابو جہل کا قرآن سے متاثر ہونا :۔ ان کا دوسرا اقدام یہ تھا کہ ان سرداروں نے آپس میں بھی پابندی لگا رکھی تھی کہ وہ عمداً قرآن نہیں سنا کریں گے۔ اور یہ ایسی پابندی تھی جسے یہ پابندی لگانے والے سردار خود بھی نباہ نہ سکے۔ کیونکہ ان کے کان اور ان کے دل قرآن کی بلاکی تاثیر سے لطف اندوز ہوئے بغیر نہ رہتے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کو کعبہ میں کھڑے ہو کر بلند آواز سے قرآن پڑھ رہے تھے اور تین قریشی سردار ایک دوسرے سے چھپتے چھپاتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرآن سن رہے تھے۔ بعد میں یہ راز فاش ہوگیا تو ان میں سے ایک سردار نے ابو جہل سے پوچھا کہ جو قرآن تم نے سنا ہے اس کے متعلق تمہارا کیا خیال ہے؟ اس سوال کا صحیح جواب دینے کی بجائے ابو جہل نے بات کا رخ دوسری طرف موڑتے ہوئے کہا کہ ہم (یعنی بنو مخزوم) اور بنو عبدمناف سب باتوں میں ہمسر تھے۔ اب ہم ان کے نبی کو تسلیم کرکے ان کی برتری کیسے تسلیم کرسکتے ہیں؟ گویا اس کا صحیح جواب کو گول کر جانا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ قرآن کی تاثیر سے متاثر ہوچکا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت تسلیم کرنے میں محض قبائلی رقابت اور تکبر اس کے آڑے آرہا تھا۔ قرآن کی آواز کو دبانے کا جدید طریقہ : لاؤڈ سپیکر :۔ اور ان کا تیسرا اقدام یہ تھا کہ جہاں قرآن پڑھا جارہا ہو وہاں خوب شور مچاؤ، تالیاں بجاؤ اور اتنا غل غپاڑہ کرو کہ قرآن کی آواز اس شور میں دب جائے اور کسی کے کان میں نہ پڑنے پائے۔ آج بھی جاہلوں کو ایسی ہی تدبیریں سوجھا کرتی ہیں۔ اور مکہ کے کافروں کو تو شور مچانے کی زحمت برداشت کرنا پڑتی تھی آج یہ زحمت بھی گوارا نہیں کرنا پڑتی۔ بس لاؤد سپیکر کے طاقتور اور زیادہ ہارن لگا دینے سے ہی یہ مقصد حاصل کرلیا جاتا ہے۔