وَقَيَّضْنَا لَهُمْ قُرَنَاءَ فَزَيَّنُوا لَهُم مَّا بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ وَحَقَّ عَلَيْهِمُ الْقَوْلُ فِي أُمَمٍ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِم مِّنَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ ۖ إِنَّهُمْ كَانُوا خَاسِرِينَ
اور ہم نے ان کے کچھ ہم نشین مقرر کر رکھے تھے جنہوں نے ان کے اگلے پچھلے اعمال ان کی نگاہوں میں خوبصورت بنا رکھے (١) تھے اور ان کے حق میں بھی اللہ کا قول امتوں کے ساتھ پورا ہوا جو ان سے پہلے جنوں اور انسانوں کی گزر چکی ہیں۔ یقیناً وہ زیاں کار ثابت ہوئے۔
[٣١] قرین کا مفہوم نیزآدمی کا کردار اپنے دوستوں سے پہچانا جاتا ہے :۔ قُرَنَاء قرین کی جمع ہے۔ جس کا معنی ہم عمر ساتھی ہے جو بہادری، قوت اور دیگر اوصاف میں اس کا ہمسر ہو، ہمجولی اور اس لفظ کا استعمال برے معنوں میں ہوتا ہے یعنی جو لوگ اللہ کو بھول کر بداعمالیوں میں لگے رہتے ہیں تو ان کے ہمجولی بھی انہی کی قسم کے شیطان سیرت ہوتے ہیں۔ جو اس کے ہر برے عمل پر اسے شاباش اور داد تحسین ہی دیئے جاتے ہیں۔ مثلاً چوروں یا ڈاکوؤں کے گروہ میں سے اگر ایک شخص اپنی چوری یا ڈاکہ کی داستان سنائے گا تو دوسرے ساتھی اس کے اس کارنامہ کو بہادری پر محمول کرکے فخریہ انداز میں اس کی داستان سنیں سنائیں گے۔ ان میں سے کسی کو یہ خیال نہ آئے گا کہ وہ لوگوں کے اموال غصب کرکے کتنے بڑے کبیرہ گناہوں کے مرتکب ہو رہے ہیں اور اس سلسلہ میں اللہ تعالیٰ کی سنت یہ ہے کہ برے اور بدکردار آدمیوں کو ان جیسے ہی دوست اچھے لگتے ہیں اور کسی بدکردار آدمی کی کسی نیک فطرت آدمی سے دوستی ہو بھی جائے تو وہ زیادہ دیر چل نہیں سکے گی۔ اسی طرح نیک لوگوں کے دوست بھی ہمیشہ نیک لوگ ہی ہوا کرتے ہیں اور ہوسکتے ہیں۔ نیک سیرت انسان سے کسی بدکردار کی دوستی کبھی نبھ نہیں سکتی۔ لہٰذا بعض آدمیوں کا یہ کہنا کہ فلاں آدمی خود تو اچھا تھا مگر اسے ساتھی برے مل گئے یہ بات حقیقت کے خلاف ہے۔ کیونکہ اگر وہ فی الواقع اچھا تھا تو دو ہی صورتیں ممکن ہیں یا تو وہ دوسروں کو بھی اچھا بنا لیتا اور یا پھر ان سے الگ ہوجاتا۔ اور اگر اس نے یہ دونوں کام نہیں کیے تو پھر وہ اچھا کیسے ہوا ؟ [٣٢] یعنی جو لوگ اپنے برے ساتھیوں کی باتوں پر لگ جاتے ہیں۔ اور ان کے بھرے میں آجاتے ہیں وہ سمجھ لیں کہ وہ خود ہی اپنی تباہی کا سامان کر رہے ہیں۔