فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ رِيحًا صَرْصَرًا فِي أَيَّامٍ نَّحِسَاتٍ لِّنُذِيقَهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَلَعَذَابُ الْآخِرَةِ أَخْزَىٰ ۖ وَهُمْ لَا يُنصَرُونَ
بالآخر ہم نے ان پر ایک تیز تند آندھی (١) منحوس دنوں میں (٢) بھیج دی کہ انہیں دنیاوی زندگی میں ذلت کے عذاب کا مزہ چکھا دیں، اور (یقین مانو) کہ آخرت کا عذاب اس سے بہت زیادہ رسوائی والا اور وہ مدد نہیں کئے جائیں گے۔
[١٩] کوئی دن بذات خود نحس نہیں ہوتا (ذکر قوم عاد) :۔ یعنی وہ دن قوم عاد کے لیے منحوس تھے، ورنہ کوئی دن بذات خود نہ سعد ہوتا ہے اور نہ نحس جیسا کہ جوتشیوں اور انسانی زندگی پر سیاروں کے اثرات تسلیم کرنے والوں کا نظریہ ہوتا ہے۔ وہی دن جو قوم عاد کے لیے منحوس تھے۔ سیدنا صالح علیہ السلام اور مومنوں کے لیے مبارک تھے۔ جس دن فرعون اور اس کے ساتھی بحیرہ قلزم میں غرق ہوئے۔ فرعون اور آل فرعون کے لیے منحوس تھا۔ مگر موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کے لیے مبارک تھا۔ علاوہ ازیں اگر یہ دن بذاتہ منحوس ہوتے تو عذاب صرف قوم عاد کے مجرموں پر ہی نہ آتا بلکہ ساری دنیا پر آتا۔ [٢٠] قوم عاد پر ٹھنڈی اور تیز ہوا کا عذاب :۔ ان لوگوں کو اپنی طاقت اور قدوقامت پر غرور تھا۔ اللہ نے ان کا غرور توڑنے کے لیے ایک کمزور سی مخلوق ہوا کو، جس کی روانی اور جھونکوں کے لیے سب لوگ ترستے ہیں۔ ان پر مسلط کردیا۔ ٹھنڈی ہوا انسان کو بہت خوشگوار لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس ہوا کو لگاتار چلنے کا حکم دیا اور اس کی ٹھنڈک بڑھا دی۔ یہی ہوا سخت ٹھنڈی آندھی کی شکل اختیار کرگئی۔ جو ان کے پتھر کے بنے ہوئے مکانوں اور ایوانوں میں گھس گئی۔ اس کی تیزی کا یہ حال تھا کہ اس نے نہ کوئی درخت صحیح و سالم چھوڑا نہ مکان، نہ مواشی اور انسان۔ سب ایک دوسرے پر گرے پڑے تھے۔ گر گر کر مر جاتے تھے اور مر مر کر گرتے جاتے تھے۔ آٹھ دن اور سات راتیں آندھی نے اسی طرح اپنا زور دکھایا۔ اور مغرور قوم کے صرف غرور کو ہی نہ توڑا بلکہ پوری قوم کے افراد کا ستیاناس کرکے رکھ دیا۔ یہ تو تھا ان کے لیے دنیا کا عذاب اور اخروی عذاب جو ان کی کرتوتوں کا اصل بدلہ ہوگا وہ تو اور بھی زیادہ رسوا کرنے والا ہوگا۔ دنیا میں بھی انہیں اللہ کے عذاب سے کوئی چیز نہ بچا سکی تو آخرت میں تو ان کی کسی جانب سے مدد کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔