إِذْ جَاءَتْهُمُ الرُّسُلُ مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ وَمِنْ خَلْفِهِمْ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا اللَّهَ ۖ قَالُوا لَوْ شَاءَ رَبُّنَا لَأَنزَلَ مَلَائِكَةً فَإِنَّا بِمَا أُرْسِلْتُم بِهِ كَافِرُونَ
ان کے پاس جب ان کے آگے پیچھے سے پیغمبر آئے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو تو انہوں نے جواب دیا کہ اگر ہمارا پروردگار چاہتا تو فرشتوں کو بھیجتا۔ ہم تو تمہاری رسالت کے بالکل منکر ہیں (١)
[١٦] اس آیت کے کئی مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ ان کے پاس رسول آتے رہے۔ دوسرا یہ کہ ان کے پاس جو رسول آئے انہوں نے ان لوگوں کو ہر پہلو سے سمجھانے کی کوشش کی اور تیسرا یہ کہ ان کے اپنے علاقہ میں بھی رسول آئے اور ان کے گردوپیش کے علاقہ میں بھی اور ان کی تعلیم بھی ان تک پہنچ چکی تھی۔ [١٧] یعنی تم تو بشر ہو۔ تمہیں ہم کیسے اللہ کا رسول مان سکتے ہیں۔ کوئی فرشتہ ہمارے پاس رسول بن کر آتا تب بھی کوئی بات تھی۔ ہر منکر حق قوم کو یہ اعتراض رہا ہے اور اس اعتراض کی حقیقت ''خوئے بدرا بہانہ بسیار'' سے زیادہ کچھ نہیں۔ اور اس اعتراض کے جواب بھی قرآن میں جا بجا مذکور ہیں۔