فَقَضَاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ فِي يَوْمَيْنِ وَأَوْحَىٰ فِي كُلِّ سَمَاءٍ أَمْرَهَا ۚ وَزَيَّنَّا السَّمَاءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيحَ وَحِفْظًا ۚ ذَٰلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ
پس دو دن میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر آسمان میں اس کے مناسب احکام کی وحی بھیج دی (١) اور ہم نے آسمان دنیا کو چراغوں سے زینت دی اور نگہبانی کی (٢) یہ تدبیر اللہ غا لب و دانا کی ہے۔
[١٠] زمین و آسمان کی تخلیق، ترتیب اور زمانہ تخلیق :۔ قرآن میں متعدد مقامات پر مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان یعنی کائنات کو چھ ایام (یا ادوار) میں بنایا۔ پھر بعض روایات میں بھی یہ مذکور ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہفتہ میں فلاں کام کیا تھا اور اتوار کو فلاں اور پیر کو فلاں اسی طرح چھ دنوں کے الگ الگ کام بھی مذکور ہیں۔ حافظ ابن کثیر کہتے ہیں کہ ایسی سب روایات ناقابل احتجاج اور اسرائیلیات سے ماخوذ ہیں۔ لہٰذا ان کا کچھ اعتبار نہیں البتہ کسی مقام پر تو یہ مذکور ہے کہ زمین آسمانوں سے پہلے پیدا کی گئی اور کسی مقام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ زمین بعد میں پیدا ہوئی اور کبھی یہ اشتباہ پیدا ہونے لگتا ہے کہ کائنات کی پیدائش میں چھ کے بجائے آٹھ دن لگے تھے۔ ایسے شبہات و اختلافات کا بہترین جواب وہ ہے جو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک سائل کو دیا تھا۔ اور یہ جواب سورۃ نساء کی آیت نمبر ٨٢ کے حاشیہ میں ملاحظہ کرلیا جائے۔ [١١] آسمان زمین سے لاکھوں گنا زیادہ جسامت رکھتے ہیں۔ اور زمین میں جب ہزاروں قسم کی مخلوق آباد ہے اور لاکھوں قسم کے کارخانے ہیں تو آسمان کیسے خالی رہ سکتا ہیں۔ آسمانوں میں فرشتوں کی موجودگی کا ذکر تو قرآن میں صراحت سے موجود ہے اور واقعہ معراج سے پتہ چلتا ہے کہ ہر آسمان میں طرح طرح کی مخلوق آباد ہے۔ اگرچہ اس کی تفصیلات معلوم کرنا ہمارے بس سے باہر ہے۔ [١٢] تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ والصافات کا حاشیہ نمبر ٤ [١٣] تشریح کے لیے دیکھئے سورۃ والصافات کا حاشیہ نمبر ٥ [١٤] اشیاء کائنات کا کثیر المقاصد ہونے کے ساتھ حسین اور مربوط ہونا :۔ اس کائنات کی ہر چیز جہاں کئی کئی مقاصد پورے کر رہی ہے وہاں ذوق جمال کے لحاظ سے بھی راحت بخش ہے۔ یہ ممکن تھا کہ ایک چیز سے فائدے تو کئی حاصل ہوں مگر وہ کریہہ المنظر ہو مگر کائنات میں ایسی کوئی بات نہیں ہے پھر ان تمام اشیاء میں باہمی ربط بھی ہے اور تعاون بھی۔ جس سے دو باتوں کا پتہ چلتا ہے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا خالق صرف ایک ہی ہوسکتا ہے اور اتنا زورآور ہے کہ ہر چیز سے اپنی مرضی کے موافق کام لے رہا ہے اور لے سکتا ہے۔ اور دوسرے یہ کہ خالق کائنات کی ایک ایک چیز کی کیفیت اور ماہیت دونوں چیزوں کا مکمل علم رکھتا ہے۔