وَجَعَلَ فِيهَا رَوَاسِيَ مِن فَوْقِهَا وَبَارَكَ فِيهَا وَقَدَّرَ فِيهَا أَقْوَاتَهَا فِي أَرْبَعَةِ أَيَّامٍ سَوَاءً لِّلسَّائِلِينَ
اور اس نے زمین میں اس کے اوپر سے پہاڑ گاڑ دیئے (١) اور اس میں برکت رکھ دی (٢) اور اس میں (رہنے والوں) کی غذاؤں کی تجویز بھی اسی میں کردی (٣) (صرف) چار دن میں (٤) ضرورت مندوں کے لئے یکساں طور پر (٥)۔
[٨] زمین کی اشیاء سے انتفاع کا یکساں حق اور حق ملکیت :۔ بعض علماء نے﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کا یہ ترجمہ کیا ہے ’’برابر ہے واسطے پوچھنے والوں کے‘‘ (شاہ رفیع الدین) ’’ٹھیک جواب پوچھنے والوں کو‘‘ (احمد رضا خان) انسانی تاریخ کا ایک بنیادی اور اہم سوال یہ بھی رہا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق کیونکر ہوئی؟ ان آیات میں اسی بنیادی سوال کا جواب دے کر فرمایا کہ ایسا سوال کرنے والوں کے اطمینان کے لیے اتنا جواب کافی ہے۔ اور اس جملہ کا دوسرا ترجمہ جو اوپر درج کیا گیا ہے، بہت سے علماء اور مفسرین اس ترجمہ کے بھی موّید ہیں۔ اور اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ زمین کی پیداوار سے انتفاع کا حق سب ضرورت مندوں کے لیے یکساں ہے۔ خواہ یہ ضرورت مند انسان ہوں یا حیوانات ہوں یا چرند پرند ہوں۔ اور انتفاع کے حق کی یکسانی کی مثال یوں سمجھئے۔ جیسے جنگل میں ایندھن پڑا ہو۔ اب جو شخص اسے اٹھا کر اپنے قبضہ میں کرلے گا۔ تو اب اس ایندھن پر اس کا حق ثابت ہوگیا۔ اور جب تک وہ جنگل میں پڑا تھا اسے وہاں سے اٹھانے کا ہر شخص یکساں حق رکھتا تھا۔ اس کی دوسری مثال چشمہ کا یا دریا کا پانی ہے۔ ہر شخص وہاں سے پانی لانے کا یکساں حق رکھتا ہے۔ لیکن جب کوئی شخص وہاں سے پانی لے کر اس پر اپنا قبضہ کرلے گا تو اب یہ پانی اسی کا ہوگیا۔ اس میں دوسروں کا حق نہ رہا۔ اسی طرح بنجر زمین آباد کرنے کا حق اور اس سے فائدہ اٹھانے کا حق سب کے لیے یکساں ہے مگر جب کوئی شخص محنت کرکے اس کو آباد کرلے تو اس کا حق ثابت اور دوسروں کا حق ختم ہوگیا یہ ہے حق ملکیت کا اسلامی اصول اور اسی لحاظ سے ہم نے یہ ترجمہ اختیار کیا ہے۔ مگر جب سے روس میں اشتراکی نظام قائم ہوا ہے (جو کہ اب ناکام بھی ہوچکا ہے) اور اس نے دوسرے ملکوں میں اس نظام کے بپا کرنے کے لیے فضا کو سازگار بنانے کے لیے اپنے ایجنٹ بھی چھوڑ رکھے ہیں اور چونکہ یہ نظام زمین اور اسی طرح دوسری اشیاء پر انفرادی حق ملکیت کو تسلیم نہیں کرتا۔ لہٰذا ان لوگوں نے قرآن سے حق ملکیت زمین کے عدم جواز کا کھوج لگانا شروع کردیا۔ حالانکہ یہ مسئلہ انسان کی معاش سے تعلق رکھتا اور بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو زمین کی ذاتی ملکیت کو ناجائز یا حرام قرار دینا مقصود ہوتا تو قرآن میں ایسے واضح احکام نازل کیے جاتے جن سے سابقہ مروجہ حق ملکیت کی تردید کی جاتی۔ لیکن قرآن میں کوئی ایسا حکم موجود نہیں۔ چند دوسری متشابہ آیات کی طرح اس آیت سے بھی ان لوگوں نے اپنا یہ نظریہ کشید کرنے کی کوشش فرمائی ہے۔ اور ہم نے وہی ترجمہ درج کیا ہے جو ان حضرات کا پسندیدہ ہے۔ وہ اس آیت کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ زمین کی پیداوار پر سب انسانوں کا ایک جیسا اور برابر کا حق ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ حکومت زمین کو اپنی تحویل میں لے لے پھر اس کی پیداوار لوگوں میں تقسیم کرے۔ حق ملکیت کے متعلق اشتراکیوں کی دلیل اور اس کا جواب :۔ ان لوگوں کی اس تاویل پر پہلا اعتراض تو یہ ہے کہ ضرورتمند، طلبگار یا حاجتمند صرف انسان ہی نہیں بلکہ حیوانات، چرند پرند، کیڑے مکوڑے سب ہی خوراک کے محتاج ہیں اور سب کے لیے یہ خوراک زمین ہی سے حاصل ہوتی ہے تو کیا یہ ساری مخلوق زمین یا زمین کی پیداوار میں برابر کی حصہ دار ہوگی؟ اگر زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اس کی پیداوار کو صرف انسانوں میں برابر تقسیم کیا جائے تو دوسری مخلوق کو ﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کے زمرہ سے نکالنے کی کیا دلیل ہے؟ اور دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا زمین سب مخلوقات میں برابر برابر تقسیم ہوگی یا اس کی پیداوار؟ اور تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا عملاً ایسا ممکن بھی ہے؟ اگر حکومت زمین کو انفرادی ملکیت سے نکال کر اپنی تحویل میں لے لے تو یہ ﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کیسے ہوئی۔ اور اگر حکومت زمین کی پیداوار کو اپنی مرضی سے افراد کو دیتی یا ان میں تقسیم کرتی ہے تو بھی عملی طور پر ﴿سَوَاءً لِّلسَّایِٕلِیْنَ ﴾کے تقاضے پورا کرنا ناممکن ہے۔ لہٰذا ان حضرات کی یہ تاویل باطل ہی نہیں ناممکن العمل بھی ہے۔ اور اس کا اصل مطلب یہی ہے کہ زمین کی پیداوار سے اللہ کی ساری مخلوق کو انتفاع کا حق ایک جیسا ہے۔ جیسا کہ پہلے ایک دو مثالوں سے واضح کیا جاچکا ہے۔ اور انسانوں کے علاوہ دوسری جاندار مخلوق بھی زمین کی اشیاء سے فیض یاب ہو رہی ہے اور اس بات کا حق بھی رکھتی ہے۔