يَا قَوْمِ لَكُمُ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ظَاهِرِينَ فِي الْأَرْضِ فَمَن يَنصُرُنَا مِن بَأْسِ اللَّهِ إِن جَاءَنَا ۚ قَالَ فِرْعَوْنُ مَا أُرِيكُمْ إِلَّا مَا أَرَىٰ وَمَا أَهْدِيكُمْ إِلَّا سَبِيلَ الرَّشَادِ
اے میری قوم کے لوگو! آج تو بادشاہت تمہاری ہے کہ اس زمین پر تم غالب ہو، لیکن اگر اللہ کا عذاب ہم پر آگیا تو کون ہماری مدد کرے گا ٢١) فرعون بولا، میں تو تمہیں وہی رائے دے رہا ہوں جو خود دیکھ رہا ہوں اور میں تو تمہیں بھلائی کی راہ بتلا رہا ہوں۔ (٣)
[٤٢] کیا تم اس کے قتل کی بات محض اس لئے کرتے ہو کہ آج تمہارے ہاتھ میں حکومت ہے اور اگر تم ایساکر بھی لو گے تو تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ لیکن اگر وہ سچا ہوا اور تم پر اللہ کی طرف سے عذاب آگیا تو اس وقت تمہاری یہ حکومت کسی کام نہ آئے گی۔ اور سب تباہ ہوجائیں گے۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک بھی اس نے اپنا ایمان ظاہر نہ کیا تھا۔ اور فرعون اور اس کے درباریوں سے غیر جانبدار رہ کر ناصحانہ قسم کی باتیں کر رہا تھا۔ [٤٣] فرعون کے اس جملہ سے بھی معلوم ہو رہا ہے کہ فرعون اسے تاحال اپنا مخالف یا مومن نہیں سمجھتا تھا بلکہ اسے اپنا ناصح ہی سمجھ رہا تھا۔ اسی لئے اس نے اس مرد مومن کو یہ جواب دیا کہ مجھے تو اسی بات میں بھلائی نظر آتی ہے کہ اس شخص کو قتل کردینا ہی بہتر ہے اور میں اپنی سمجھ اور بصیرت کے مطابق جو حالات سامنے دیکھ رہا ہوں وہی تمہیں بتا رہا ہوں اور اسی میں تمہاری بھلائی سمجھتا ہوں۔