الْيَوْمَ تُجْزَىٰ كُلُّ نَفْسٍ بِمَا كَسَبَتْ ۚ لَا ظُلْمَ الْيَوْمَ ۚ إِنَّ اللَّهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ
آج ہر نفس کو اس کی کمائی کا بدلہ دیا جائے گا آج (کسی قسم کا) ظلم نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب کرنے والا ہے (١)۔
[٢٢] ظلم کی ممکنہ صورتیں :۔ ظلم کی کئی صورتیں ممکن ہیں۔ مثلاً پہلی یہ کہ کسی نے ظلم نہ کیا ہو لیکن اسے خواہ مخواہ سزا دے دی جائے۔ دوسری یہ کہ جرم تو تھوڑا ہو مگر اسے سزا زیادہ دے دی جائے۔ تیسری یہ کہ آدمی مستحق تو اجر کا ہوگا مگر اسے سزا دے دی جائے۔ چوتھی یہ کہ جرم تو زید نے کیا ہو مگر اس کی سزا بکر کو دے دی جائے پانچویں یہ کہ آدمی جتنے اجر کا مستحق ہو اسے اس سے کم دیا جائے۔ چھٹی یہ کہ آدمی سزا کا مستحق ہو مگر اسے سزا نہ دی جائے اور مظلوم منہ دیکھتا رہ جائے۔ غرضیکہ ظلم کی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں ان میں کسی بھی صورت کا ظلم اللہ کی عدالت میں ہونے نہ پائے گا۔ [٢٣] فیصلہ میں دیر لگنے کی وجہ :۔ اللہ تعالیٰ کو ساری مخلوق کا حساب چکانے اور فیصلہ کرنے میں دیر نہیں لگے گی۔ اس لئے کہ دیر لگنے کی دو ہی صورتیں ممکن ہیں ایک یہ کہ انصاف کے تقاضے پورے نہ ہورہے ہوں جیسے یہاں دنیا کی عدالتوں میں ہوتا ہے کہ کبھی مدعی حاضر نہیں ہوتا اور کبھی مدعا علیہ، کبھی گواہ غیر حاضر ہوتے ہیں اور بار بار کے نوٹسوں کے باوجود عدالت میں حاضر ہی نہیں ہوتے اور اس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرتے کرتے ہی سالہا سال لگ جاتے ہیں۔ اللہ کی عدالت میں یہ بات نہ ہوگی۔ وہاں مدعی، مدعا علیہ اور گواہ سب موجود اور اللہ کے علم میں ہونگے اور جس کی ضرورت ہوگی وہ فوراً حاضر ہوجائے گا یا حاضر کرلیا جائے گا۔ دیر کی دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ دنیا میں قاضی ایک وقت میں ایک ہی مقدمہ کی سماعت کرسکتا ہے لیکن اللہ کے ہاں یہ معاملہ نہیں۔ وہ جس طرح بیک وقت ہر ایک کو دیکھتا، ہر ایک کی سنتا، ہر ایک کی داد رسی کرتا اور ہر ایک کو رزق دے رہا ہے۔ اسی طرح وہ بیک وقت اپنی تمام مخلوق کے مقدمات کی سماعت بھی کرسکتا ہے اور ان کے فیصلے بھی کرسکتا ہے۔