رَفِيعُ الدَّرَجَاتِ ذُو الْعَرْشِ يُلْقِي الرُّوحَ مِنْ أَمْرِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ لِيُنذِرَ يَوْمَ التَّلَاقِ
بلند درجوں والا عرش کا مالک وہ اپنے بندوں میں سے جس پر چاہتا ہے وحی نازل فرماتا ہے تاکہ ملاقات کے دن ڈرائے۔
[١٨] یعنی وہ اتنے بلند درجات کا مالک ہے کہ مخلوق کا اس کے قریب ہونے کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ چہ جائیکہ اللہ کی صفات اور ان کے اختیارات میں کسی دوسری مخلوق کے شریک ہونے کا تصور کیا جاسکے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے مخلص اور فرمانبرداروں کے درجات کو بلند کرنے والا ہے جس حد تک کوئی شخص اللہ کا فرمانبردار بنتا جاتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند کرتا جاتا ہے اور قیامت کے دن انہیں درجات کے لحاظ سے اہل جنت کو جنت میں مقام عطا کیا جائے گا۔ [١٩] (روح کے مختلف معانی کے لئے دیکھئے سورۃ النحل کی آیت نمبر ٢ کا حاشیہ نمبر ٣) مطلب یہ ہے کہ اللہ کو اپنے کسی بندے پر وحی بھیجنے کے سلسلہ میں تمہارے کسی مشورہ کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ ہی تم وحی کے ٹھیکیدار ہو کہ تمہاری مرضی کے خلاف اللہ تعالیٰ کسی کی طرف وحی نہ بھیج سکے۔ وہ خالصتاً اپنی مرضی اور اپنی صوابدید کے مطابق جس پر چاہتا ہے اپنی وحی نازل فرماتا ہے۔ [٢٠] ملاقات سے مراد بندے کی اپنے پروردگار سے ملاقات بھی ہوسکتی ہے۔ اور جنوں، انسانوں اور شیطانوں کی ایک دوسرے سے بھی۔ قیامت کے دن سب کی ایک دوسرے سے ملاقات ہوجائے گی۔