قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا ۚ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ
(میری جانب سے) کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہوجاؤ، بالیقین اللہ تعالیٰ سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے، واقعی وہ بڑی، بخشش بڑی رحمت والا ہے (١)
[٧١] اسلام لانے سے، پہلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں :۔ اس آیت کے انداز سے معلوم ہو رہا ہے کہ یہ کسی سوال کے جواب میں نازل ہوئی ہے اور ان لوگوں کے لئے پیغام امید لے کر آئی ہے جو دور جاہلیت میں قتل، زنا، چوری، ڈاکے اور ایسے ہی سخت گناہوں میں غرق رہ چکے تھے اور اس بات سے مایوس تھے کہ یہ قصور کبھی معاف نہ ہوسکیں گے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ کچھ مشرکوں نے بہت خون کئے تھے اور بکثرت زنا کرتے رہے، وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے :’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ کہتے ہیں اور جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ اچھا ہے۔ کیا اچھا ہو اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں یہ بتا دیں کہ ہمارا اسلام لانا ہمارے گناہوں کا کفارہ ہوجائے گا ؟‘‘ اس وقت (سورہ فرقان کی) یہ آیت ﴿ وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰــہًا اٰخَرَ ﴾ یہ آیت﴿قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ ﴾تاآخر نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہ معاف کردیتا ہوں تم مجھ ہی سے معافی مانگو۔ میں معاف کردوں گا۔ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ۔ باب تحریم الظلم) تحریف معنوی کی ایک مثال :۔ اس آیت کی بعض لوگوں نے بہت عجیب سی تاویل کی ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے نبی سے کہہ رہا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں سے کہہ دیجئے کہ اے میرے بندو! یعنی بندے اللہ کے نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں۔ یہ تاویل دراصل تاویل نہیں بلکہ بدترین قسم کی تحریف ہے۔ کیونکہ یہ تاویل قرآن کی ساری تعلیم کے برخلاف ہے۔ نیز اس سے رسول اللہ کی شان بڑھتی نہیں بلکہ ان پر سخت الزام آتا ہے۔ آپ اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ سب لوگوں کو دوسرے معبودوں کی بندگی سے ہٹاکر خالص اللہ کے بندے بنائیں۔ نہ یہ کہ اپنے ہی بندے بنانا شروع کردیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود بھی اللہ کے بندے تھے اور اس بندگی کا اقرار کرنے سے ہی ایک شخص اسلام میں داخل ہوسکتا ہے اور اس بندگی کا اقرار ہم سب نمازوں میں کئی بار کرتے ہیں۔ اس تاویل کو دیکھ کر بے اختیار ڈاکٹر اقبال (رح) کے یہ شعر یاد آجاتے ہیں : زمن برصوفی و ملا سلامے۔۔ کہ پیغام خدا گفتند مار ا ولے تاویل شان در حیرت انداخت۔۔۔ خدا و جبرئیل ومصطفی را (ترجمہ : میری طرف سے صوفی و ملا کو سلام ہو جنہوں نے ہمیں اللہ کا پیغام پہنچایا۔ لیکن ان کی تاویل نے اللہ، جبرئیل اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سب کو حیرت میں ڈال دیا (کہ ہم نے کیا کہا تھا اور ان لوگوں نے اس کا کیا مطلب لے لیا ہے)