سورة الزمر - آیت 21

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللَّهَ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَسَلَكَهُ يَنَابِيعَ فِي الْأَرْضِ ثُمَّ يُخْرِجُ بِهِ زَرْعًا مُّخْتَلِفًا أَلْوَانُهُ ثُمَّ يَهِيجُ فَتَرَاهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ يَجْعَلُهُ حُطَامًا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَذِكْرَىٰ لِأُولِي الْأَلْبَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ اللہ تعالیٰ آسمان سے پانی اتارتا ہے اور اسے زمین کی سوتوں میں پہنچاتا ہے (١) پھر اسی کے ذریعے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے پھر وہ خشک ہوجاتی ہیں اور آپ انہیں زرد رنگ میں دیکھتے ہیں پھر انہیں ریزہ ریزہ کردیتا ہے (٢) اس میں عقلمندوں کیلئے بہت زیادہ نصیحت ہے۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٣١] بارش کا کچھ پانی زمین میں جذب ہو کر زمین کو سیراب کرتا ہے۔ زائد پانی اور نیچے چلا جاتا ہے۔ جو کبھی چشموں کی صورت میں پھوٹ نکلتا ہے اور کبھی کنوئیں وغیرہ کھود کر نکالا جاتا ہے۔ اور زائد پانی ندی نالوں میں بہتا ہوا دریاؤں کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ یہ سب پانی کے منابع ہیں۔ اور جو بھی صورت ہو بارش کے پانی سے انسانوں، حیوانوں اور نباتات کی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔ [٣٢] دنیا کے کمال کو بھی زوال آکے رہے گا :۔ سبق یہ ہے کہ جو چیز بھی عروج کو پہنچے اسے زوال بھی ضرورآتا ہے۔ جب وہ جوبن پر ہو تو بڑی بہار دکھاتی اور اچھی لگتی ہے مگر اس کا انجام عبرت آموز ہوتا ہے۔ نباتات کی بھی یہی کیفیت ہے۔ پھر انسان کی اپنی زندگی کی بھی یہی کیفیت ہے۔ یہ چیزیں تو ہر انسان کے مشاہدے میں آسکتی ہیں۔ مگر قوموں کے عروج و زوال کی بھی اگرچہ یہی کیفیت ہوتی ہے مگر وہ انسان کے مشاہدہ میں نہیں آتی۔ کیونکہ وہ صدیوں پر محیط ہوتی ہے۔ اور اس کا ہمیں تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ فلاں قوم پر فلاں وقت عروج کا دور تھا اور فلاں وقت انحطاط کا۔ پھر اس سے آگے اس دنیا کا بھی یہی حال ہے جو اس وقت اپنی بہاریں دکھا رہی ہے اور اکثر لوگ اسی پر ریجھ بیٹھے اور اسی میں مست اور مگن ہوگئے ہیں۔ حالانکہ اس کا انجام بھی اللہ کی سنت کے مطابق وہی کچھ ہونے والا ہے جو دوسری چیزوں کا ہو رہا ہے۔ لہٰذا انسان کو ان مثالوں سے سبق حاصل کرنا چاہئے اور اس پر ریجھنے کے بجائے اس گھر کی فکر کرنا چاہئے جسے کبھی زوال نہیں آئے گا۔