سورة الزمر - آیت 18

الَّذِينَ يَسْتَمِعُونَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُونَ أَحْسَنَهُ ۚ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَاهُمُ اللَّهُ ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمْ أُولُو الْأَلْبَابِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

جو بات کو کان لگا کر سنتے ہیں۔ پھر جو بہترین بات ہو (١) اس پر عمل کرتے ہیں۔ یہی ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ نے ہدایت کی اور یہی عقلمند بھی ہیں (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٨] اتباع احسن سے کیا مراد ہے؟ ان لوگوں کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین کی اس صورت میں پیروی کرتے ہیں جو بہتر سے بہتر ہو۔ مثلاً نماز کی ادائیگی کی جائے تو خلوص نیت اور اللہ کی رضا اور اس کی محبت کے جذبے سے ادا کرے۔ بروقت اور باجماعت ادا کرے۔ طہارت اچھی طرح کرے۔ نماز میں خشوع و خضوع ہو اور ظاہری ارکان و آداب بھی درست ہوں۔ تو یہ نماز کی اچھی سے اچھی صورت ہے۔ اب اگر کوئی شخص نماز تو باجماعت ادا کرتا ہے لیکن نماز میں خیال بس دنیوی باتوں کے ہی آتے رہیں۔ نماز میں بے توجہی ہو۔ فضول حرکتیں بھی کرتا رہے اور سست اور ڈھیلا ڈھالا کھڑا رہے۔ تو نماز تو اس نے بھی ادا کرلی۔ اور اللہ کے حکم کی اطاعت بھی ہوگئی مگر یہ احسن صورت نہیں۔ اور پہلے اور اس شخص کی نماز میں بہت فرق ہے۔ یہی حال تمام اعمال کا ہے۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ باتیں تو سب کی سنتے ہیں مگر قبول صرف وہ بات کرتے ہیں جو ان سے بہتر ہو پھر اسی پر عمل پیرا ہوتے ہیں۔