قُلْ يَا عِبَادِ الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا رَبَّكُمْ ۚ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هَٰذِهِ الدُّنْيَا حَسَنَةٌ ۗ وَأَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةٌ ۗ إِنَّمَا يُوَفَّى الصَّابِرُونَ أَجْرَهُم بِغَيْرِ حِسَابٍ
کہہ دو کہ اے میرے ایمان والے بندو! اپنے رب سے ڈرتے رہو (١) جو اس دنیا میں نیکی کرتے ہیں ان کے لئے نیک بدلہ ہے (٢) اور اللہ تعالیٰ کی زمین بہت کشادہ ہے صبر کرنے والے ہی کو ان کا پورا پورا بیشمار اجر دیا جاتا ہے۔
[٢٠] یہاں بھلائی سے مراد صرف مال و دولت ہی نہیں اگرچہ مال و دولت بھی اس بھلائی میں شامل ہے۔ یعنی یہ ممکن ہے کہ اس دنیا میں پرہیزگاروں کو مال و دولت عطا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ انہیں مال و دولت عطا نہ کیا جائے۔ البتہ بھلائی کی اور بھی بہت سی اقسام ہیں۔ جو انہیں یقیناً حاصل ہوتی ہیں۔ مثلاً ایسے لوگوں کی سب ہی عزت کرتے ہیں خواہ عزت کرنے والے دیندار ہوں یا دنیا دار۔ ایسے لوگوں کی بات قابل اعتماد سمجھی جاتی ہے۔ ایسے لوگوں کی ساکھ قائم ہوتی ہے اور آخرت کی بھلائی جو بہرحال ایسے لوگوں کے لئے یقینی ہے۔ [٢١] حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے :۔ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورۃ ہجرت حبشہ سے پہلے یا اس عرصہ کے لگ بھگ نازل ہوئی تھی۔ جبکہ مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کردیا گیا تھا۔ اور انہیں احکام اسلام کی بجاآوری میں کفار مکہ کی طرف سے سخت دشواریاں پیش آرہی تھیں۔ یعنی اگر مکہ کی سرزمین یا آس پاس کا علاقہ تمہارے لئے تنگ ہوگیا ہے تو اللہ کی زمین بڑی وسیع ہے کسی دوسرے ملک میں چلے جاؤ۔ جہاں آزادی سے اسلام کے احکام بجا لاسکو۔ ترک وطن کے سلسلہ میں بھی تمہیں کئی طرح کی مشکلات پیش آئیں گی اور جہاں جاؤ گے وہاں بھی ابتدائیً مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ ان مشکلات کو اگر صبر و ثبات سے برداشت کرو گے تو اس کا ثواب بھی بے حساب ملے گا۔ واضح رہے کہ صبر کا تعلق ان مسلمانوں سے بھی ہے جو ہجرت کرکے چلے گئے تھے اور ان سے بھی جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت یا کسی دوسری وجہ سے ہجرت نہ کی بلکہ مکہ میں ہی کفار کی سختیاں سہنے کے باوجود اپنے دین پر ڈٹے رہے۔