وَخُذْ بِيَدِكَ ضِغْثًا فَاضْرِب بِّهِ وَلَا تَحْنَثْ ۗ إِنَّا وَجَدْنَاهُ صَابِرًا ۚ نِّعْمَ الْعَبْدُ ۖ إِنَّهُ أَوَّابٌ
اور اپنے ہاتھ میں تنکوں کا ایک مٹھا (جھاڑو) لے کر مار دے اور قسم کا خلاف نہ کر (١) سچ تو یہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پایا، وہ بڑا نیک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے والا۔
[٥١] سیدنا ایوب کا اپنی بیوی کو سزا دینا :۔ آپ کی طویل بیماری (جو صحیح روایات کے مطابق ١٣ سال پر محیط ہے) کے دوران آپ کی سب بیویاں اور اولاد آپ کا ساتھ چھوڑ گئے تھے۔ کیونکہ تنگدستی بھی تھی اور بیماری بھی۔ آپ کی صرف ایک بیوی نے اس طویل عرصہ میں آپ کا ساتھ دیا۔ اس بیوی نے بھی ایک دن کوئی ایسی بات کہہ دی جس سے اللہ کی ناشکری ظاہر ہوتی تھی۔ سیدنا ایوب علیہ السلام کو بیوی کی اس بات پر طیش آگیا اور کہنے لگے کہ جب میں تندرست ہوگیا تو تمہاری اس ناشکری کی بات کی پاداش میں تمہیں سو لکڑیاں ماروں گا۔ اب یہ تو ظاہر بات ہے کہ ہر دکھ درد میں آپ کی شریک بیوی سے اگر کوئی ایسی بات نکل بھی گئی ہو تو وہ اتنی قصور وار نہ تھی کہ اسے سو لکڑیاں ماری جائیں۔ یہ تو صرف سیدنا ایوب علیہ السلام کی غیرت ایمانی کا تقاضا تھا اور اللہ تعالیٰ تو ہر ایک کو اس کی وسعت کے مطابق ہی تکلیف دیتا ہے۔ چنانچہ سیدنا ایوب علیہ السلام تندرست ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے خود انہیں تدبیر بتائی کہ ایک جھاڑو لو جس میں سو تنکے ہوں۔ اس سے بس ایک ہی معمولی سی ضرب لگاؤ۔ اور اس طرح اپنی قسم پوری کرلو۔ اس طرح سیدنا ایوب علیہ السلام کی قسم بھی پوری ہوگئی اور اس وفادار بیوی پر اللہ کی مہربانی کا تقاضا بھی پورا ہوگیا۔ شرعی حیلہ کس صورت میں جائز ہے :۔ یہاں ایک بحث یہ چل نکلی ہے کہ آیا شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اپنی ذات سے یا کسی دوسرے سے ظلم کو دفع کرنا مقصود ہو تو اس وقت شرعاً حیلہ کرنا جائز ہے اور اس کی دلیل ایک تو یہی آیت ہے۔ دوسرے اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کو خود ایسی تدبیر بتائی تھی کہ جس سے ان کا چھوٹا بھائی بنیامین اپنے سوتیلے بھائیوں کے ظلم و ستم سے محفوظ رہے اور تیسرے درج ذیل حدیث بھی یہ وضاحت کرتی ہے : سعید بن سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سعد بن عبادہ (یعنی سعید راوی کے باپ) ایک ناقص الخلقت بیمار شخص کو پکڑ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے کہ وہ محلہ کی لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ زنا کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کھجور کی ایک بڑی ٹہنی پکڑ کر جس میں سو چھوٹی ٹہنیاں ہوں اور ایک مرتبہ اس کو مارو۔ (شرح السنہ بحوالہ مشکوٰۃ۔ کتاب الحدود الفصل الثانی) اور یہ حیلہ آپ نے اس لئے اختیار کیا کہ وہ سو درے کھانے کی تاب نہ رکھتا تھا۔ اور اس صورت میں اس کا مرجانا یقینی امر تھا۔ رہے ایسے حیلے جن سے کوئی شرعی حکمت یا مقصد فوت ہو رہا ہو تو ایسے حیلے قطعاً ناجائز بلکہ حرام ہیں جیسے زکوٰۃ کو ساقط کرنے کے لئے یہ حیلہ کرنا کہ سال پورا ہونے سے پہلے مال کا کچھ حصہ کسی دوسرے کو ہبہ کردیا جائے پھر سال گزرنے پر اس سے وہی چیز اپنے حق میں ہبہ کرالی جائے۔ یا کسی عورت کو جبراً اپنے نکاح میں لانے کے لئے عدالت میں جھوٹی شہادتیں بھگتا کر اپنے حق میں فیصلہ لے لیا جائے اور ایسے بہت سے حیلے ہدایہ کی کتاب الحیل میں مذکور ہیں۔ امام بخاری نے ان کا تعاقب بھی کیا ہے کہ ان میں اکثر حیلے ناجائز بلکہ حرام ہیں۔