سورة الصافات - آیت 150

أَمْ خَلَقْنَا الْمَلَائِكَةَ إِنَاثًا وَهُمْ شَاهِدُونَ

ترجمہ جوناگڑھی - محمد جونا گڑھی

یا یہ اس وقت موجود تھے جبکہ ہم نے فرشتوں کو مؤنث پیدا کیا (١)۔

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٨٩] قریش کا فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں قرار دینا :۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ کی انکار آخرت کے علاوہ دوسری بڑی گمراہی کا ذکر فرمایا ہے۔ جو شرک فی الذات یا شرک کی سب سے بڑی اور بدترین قسم سے تعلق رکھتی ہے۔ یعنی وہ یہ سمجھتے تھے کہ اللہ بھی صاحب اولاد ہے۔ اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے جس کے بارے میں بہت سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ پھر اس عقیدہ میں بھی وہ کئی طرح کی بے انصافیاں کرتے تھے۔ ان کا عقیدہ یہ تھا کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی بیٹیاں ہیں۔ پھر ان کے خیالی مجسمے اور بت بنا کر ان کی پوجا بھی کرتے تھے۔ ان میں تین مجسموں کا ذکر قرآن میں مذکور ہے۔ (١) لات یہ الٰہ کا مؤنث ہے یعنی لات کا استھان یا آستانہ طائف میں تھا اور بنی ثقیف اس کے معتقد تھے، (٢) عزیٰ۔ عزیز سے مونث ہے بمعنی عزت والی۔ یہ قریش کی خاص دیوی تھی اور اس کا آستانہ مکہ اور طائف کے درمیان وادی نخلہ میں حراص کے مقام پر واقع تھا، (٣) منات کا آستانہ مکہ اور مدینہ کے درمیان بحراحمر کے کنارے قدید کے مقام پر واقع تھا۔ بنوخزاعہ، اوس اور خزرج اس کے معتقد تھے۔ گویا مشرکین عرب وہ بڑا ظلم ڈھاتے تھے ایک اللہ کی اولاد قرار دینے کا، دوسرے شریک بھی ایسے جنہیں وہ اللہ کی بیٹیاں قرار دیتے تھے۔ جبکہ وہ اپنے لئے بیٹیوں کو کبھی پسند نہیں کرتے تھے۔ بلکہ انہیں زندہ درگور کردیتے تھے۔