وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً ۖ قَالُوا أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاءَ وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ ۖ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اور جب تیرے رب نے فرشتوں (١) سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں تو انہوں (٢) نے کہا کہ ایسے شخص کو کیوں پیدا کرتا ہے جو زمین میں فساد کرے اور خون بہائے ہم تیری تسبیح اور پاکیزگی بیان کرنے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا، جو میں جانتا ہوں تم نہیں جانتے۔ (٣)
[٣٨] فرشتوں کی مستقل حیثیت : آج کل بعض ملحدین کی طرف سے یہ شبہ وارد کیا گیا ہے کہ فرشتوں سے مراد وہ مجرد قوتیں ہیں جو اس کارگاہ کائنات میں کارفرما ہیں۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ فرشتے ایسی ہستیاں ہیں جو مستقل شخصیت رکھتی ہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور ان کے درمیان مکالمہ ہوا ہے۔ علاوہ ازیں بعض ہستیوں کے قرآن میں نام بھی مذکور ہیں۔ [٣٩] آدم خلیفہ کس کا ؟ یہاں علی الاطلاق خلیفہ (نائب، قائمقام) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ صراحتاً یہ معلوم نہیں ہوسکتا کہ آدم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہے یا کسی دوسری مخلوق کا۔ بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلیفہ چونکہ وہ شخص ہوتا ہے جو کسی کے مرنے یا عدم موجودگی کی صورت میں اس کے اختیارات سنبھالتا ہے اور اللہ تو حی لایموت اور ہمہ وقت حاضر ہے۔ لہٰذا آدم اللہ کے خلیفہ نہیں تھے، بلکہ جنوں کے خلیفہ تھے پھر ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے کہ انسان کی پیدائش سے پیشتر اس زمین پر جن آباد تھے جو فتنہ فساد اور قتل و غارت کرتے رہتے تھے، تو اللہ نے فرشتوں کا لشکر بھیج کر ان جنوں کو سمندروں کی طرف دھکیل دیا اور آدم علیہ السلام ان کے خلیفہ ہوئے اور بعض علماء کا یہ خیال ہے کہ خلافت یا نیابت کے لیے موت یا عدم موجودگی ضروری نہیں، بلکہ کوئی بااختیار ہستی اپنی موجودگی میں بھی کسی کو کچھ اختیارات تفویض کر کے اسے اپنا خلیفہ یا نائب بنا سکتی ہے کہ وہ اس کی منشا کے مطابق ان اختیارات کو استعمال کرے۔ ہمارے خیال میں دوسری رائے راجح ہے، کیونکہ اس کی تائید ایک آیت ٣٣: ٧٢ سے بھی ہوجاتی ہے، اور دنیا میں موجود سفارتی نظام سے بھی، محولہ آیت کا ترجمہ یوں ہے : ہم نے امانت آسمانوں، زمین اور پہاڑوں پر پیش کی اور انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا۔ اور اس بار عظیم کے اٹھانے سے ڈر گئے۔ مگر انسان نے اسے اٹھا لیا۔ کیونکہ انسان تو انتہائی ظالم اور نادان واقع ہوا ہے (٣٣: ٧٢) اور تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہاں امانت سے مراد اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور اس کے فرائض و احکام کی تعمیل اور ان کے نفاذ کا بار ہے اور اسی کا دوسرا نام نظام خلافت ہے۔ [٤٠] فرشتوں کا یہ قیاس کہ ’’بنی آدم دنیا میں فتنہ فساد اور قتل و غارت ہی کریں گے۔‘‘ یا تو اس لحاظ سے تھا کہ جن بھی زمین میں پہلے یہی کچھ کرچکے تھے اور یا اس لحاظ سے کہ جس ہستی کو اختیارات تفویض کر کے اسے اپنے اختیار و ارادہ کی قوت بھی دی جا رہی ہے وہ افراط و تفریط سے بچ نہ سکے گا اور اس طرح فتنہ و فساد رونما ہوگا۔ [٤١] تخلیق آدم پر فرشتوں کا اعتراض کیا تھا ؟ فرشتوں کا یہ جواب تخلیق آدم پر اعتراض نہ تھا بلکہ اس سے تخلیق آدم کی عدم ضرورت کا اظہار مقصود تھا۔ فرشتوں نے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ جب ہم مدبرات امر ہونے کی حیثیت سے کارگاہِ کائنات کو پوری سرگرمی اور خوبی سے چلا رہے ہیں۔ ہم تیرے حکم کی نافرمانی بھی نہیں کرتے تیری تسبیح تقدیس بھی کرتے رہتے ہیں، اور اس کائنات کو پاک و صاف بھی رکھتے ہیں اور جب یہ سب کام بخیر و خوبی سر انجام پا رہے ہیں تو پھر آدم علیہ السلام کو بطور خلیفہ پیدا کرنے کی کیا ضرورت ہے بالخصوص ایسی صورت میں کہ اس خلیفہ سے فتنہ و فساد بھی متوقع ہے۔ ان کا یہ مطلب نہیں تھا کہ ہم چونکہ تیری تسبیح و تقدیس کرتے رہتے ہیں۔ لہٰذا خلافت کے اصل حقدار تو ہم تھے۔ نہ کہ آدم جو ایسے اور ایسے کام کرے گا۔ تسبیح و تقدیس کا فرق :۔ اس آیت میں جو تسبیح و تقدیس کے الفاظ آئے ہیں۔ تسبیح کے معنی سبحان اللہ کہنا یا سبحان اللہ کا ذکر کرنا یا اس ذات کی زبان قال یا زبان حال سے صفت بیان کرنا ہے جو ہر قسم کے عیب، نقص اور کمزوریوں سے پاک ہے۔ گویا یہ لفظ اللہ تعالیٰ کی خوبیوں کو مثبت انداز میں بیان کرنے اور اس کی حمد یا تعریف بیان کرنے کے لیے آتا ہے اور تقدیس کے معنی ایسی باتوں کی نفی کرنا ہے جو اللہ تعالیٰ کے شایان شان نہیں۔ اور قدوس معنی وہ ذات ہے جو دوسروں کی شرکت کی احتیاج اور شرک جیسی دوسری نجاستوں سے پاک ہو یعنی اضداد اور انداد دونوں سے پاک ہو (مقاییس اللغۃ) تسبیح سے حمد بیان کرنا مقصود ہوتا ہے اور تقدیس سے اللہ تعالیٰ کی تنزیہ بیان کرنا۔ [٤٢] یہ اللہ تعالیٰ کا فرشتوں کو اجمالی جواب ہے۔ تفصیلی جواب آگے آ رہا ہے۔ البتہ ضمناً اس آیت سے یہ معلوم ہوجاتا ہے کہ علم غیب فرشتوں کو بھی حاصل نہیں۔