وَجَعَلْنَا مِن بَيْنِ أَيْدِيهِمْ سَدًّا وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدًّا فَأَغْشَيْنَاهُمْ فَهُمْ لَا يُبْصِرُونَ
اور ہم نے ایک آڑ ان کے سامنے کردی اور ایک آڑ ان کے پیچھے کردی (١) جس سے ہم نے ان کو ڈھانک دیا (٢) سو وہ نہیں دیکھ سکتے۔
[ ٩] آگے بھی دیوار ہو، پیچھے بھی دیوار ہو اور جس جس طرف دیوار نہ ہو، وہاں کوئی پردہ ڈال کر ڈھانپ دیا جائے تو کوئی شخص دیکھ بھی کیسے سکتا ہے۔ ان کی یہ حالت اس لئے ہوگئی ہے کہ وہ اپنی ان جاہلانہ اور مشرکانہ رسوم ہی سے چمٹا رہنا پسند کرتے ہیں۔ اور ان باتوں کے باطل ہونے پر جو دلیل بھی پیش کی جائے اس پر غور کرنا تو درکنار اسے سننا بھی گوارا نہیں کرتے۔ اس مقام پر مختصراً یہ اشارہ کردینا ضروری ہے کہ اسباب کو اختیار کرنا انسان کے اپنے بس میں ہوتا ہے بالفاظ دیگر حق کو قبول نہ کرنے یا سرکشی کی راہ اختیار کرنے کی ابتدا ہمیشہ انسان کی طرف سے ہوتی ہے۔ پھر جو راہ انسان اختیار کرتا ہے اسے اللہ کی طرف سے اسی راہ کی توفیق و تائید ملتی جاتی ہے۔ پھر ان اسباب کے اختیار کرنے کی بنا پر جو نتیجہ مترتب ہوتا ہے اس کی نسبت کبھی تو اللہ تعالیٰ کی طرف ہوتی ہے، جیسے اس مقام پر ہے، کیونکہ نتائج مترتب کرنا اللہ کا کام ہے بندے کا نہیں اور کبھی اس کی نسبت بندے کی طرف ہوتی ہے کیونکہ اسباب بندے نے ہی اختیار کئے تھے۔