لَقَدْ حَقَّ الْقَوْلُ عَلَىٰ أَكْثَرِهِمْ فَهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
ان میں سے اکثر لوگوں پر بات ثابت ہوچکی ہے سو یہ لوگ ایمان نہ لائیں گے (١)
[ ٦] قرآن کریم نے جہاں بھی حق القول کا لفظ استعمال فرمایا تو اس کے مخاطب عموماً وہ لوگ ہوتے ہیں جو یا تو آخرت پر ایمان ہی نہ رکھتے ہوں۔ جیسے کفار مکہ یا ان جیسی دوسری قومیں جو پہلے گزر چکیں یا بعد میں آنے والی ہیں۔ یا پھر وہ لوگ ہوتے ہیں جو آخرت کو مانتے تو ہیں مگر ساتھ ہی انہوں نے کچھ ایسے سستی نجات کے عقیدے گھڑ رکھے ہوتے ہیں کہ آخرت پر ایمان لانے کے اصل مقصد کو فوت کردیتے ہیں۔ جیسے یہود کا یہ عقیدہ کہ انہیں چند دنوں کے سوا جہنم کی آگ چھوئے گی ہی نہیں۔ یا جیسے یہود و نصاریٰ کا یہ عقیدہ کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے چہیتے ہیں۔ اللہ انہیں کیوں عذاب کرے گا ؟ یا مسلمانوں کا یہ عقیدہ کہ سید قوم کی پشت ہی پاک ہوتی ہے۔ وہ جو کام بھی کرتے رہیں وہ پاک ہی رہتی ہے۔ یا یہ عقیدہ کہ فلاں حضرت صاحب کی بیعت کرلی جائے یا دامن پکڑ لیا جائے تو وہ اپنے ساتھ ہی انہیں جنت میں لے جائیں گے۔ پیچھے نہیں رہنے دیں گے یا یہ کہ وہ اللہ سے سفارش کرکے انہیں بخشوا کے چھوڑیں گے وغیرذلک ایسے تمام تر عقیدے فی الحقیقت آخرت کے عقیدہ کی نفی کردیتے ہیں۔ [ ٧] اس جملہ کی تکمیل یوں ہوتی ہے کہ وہ ایمان نہیں لائیں گے۔ اور جہنم کا ایندھن بنیں گے۔ یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کہ یہاں ایمان سے مراد ایمان بالآخرت ہے۔ ورنہ اللہ کی ہستی کو تو کفار مکہ بھی تسلیم کرتے تھے۔ البتہ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور اسی وجہ سے آپ کی رسالت کا بھی انکار کردیتے تھے۔