وَالْقُرْآنِ الْحَكِيمِ
قسم ہے قرآن با حکمت کی (١)
[ ٣] قرآن کا نزول ہی آپ کی رسالت کی سب سے بڑی دلیل ہے :۔ واؤ قسمیہ ہے اور قسم شہادت کے قائم مقام ہوا کرتی ہے۔ لعان کی صورت میں جو قسمیں اٹھائی جاتی ہیں تو وہ شہادتوں ہی کے قائم مقام ہوتی ہیں۔ ان تین مختصر سی آیات کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکمتوں سے لبریز قرآن حکیم اس بات پر قوی شہادت ہے کہ (١) آپ فی الواقع اللہ کے رسول ہیں اور (٢) یہ کہ آپ سیدھی راہ پر گامزن ہیں اور وہ شہادت یہ ہے کہ آپ امی تھے۔ کسی استاد کے سامنے زانوئے تلمذ تہ نہیں کیا تھا۔ لکھ پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ نبوت سے پہلے آپ نے کبھی کوئی ایسا کلام یا اس سے ملتا جلتا کلام بھی پیش نہیں کیا تھا جس سے یہ شبہ ہوسکے کہ شاید یہ ملکہ اس کی فطرت میں موجود تھا۔ اور وہی ملکہ ترقی کرتا رہا حتیٰ کہ آپ ایسا کلام پیش کرنے پر قادر ہوگئے اور یہ سب باتیں کفار مکہ ذاتی طور پر جانتے تھے پھر چالیس سال کی عمر میں آپ کی زبان سے یک لخت ایسے کام کا جاری ہونا جس نے تمام فصحاء و بلغائے عرب کو اپنے مقابلہ میں گنگ بنا دیا تھا اور بار بار کے چیلنج کے باوجود ایسا کلام پیش کرنے سے عاجز آگئے تھے تو اس سے صاف واضح تھا کہ یہ کلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہیں ہوسکتا بلکہ کسی ایسی ہستی کا ہی ہوسکتا ہے جو مافوق الفطرت ہو۔ حکیم ہو اور خبیر ہو۔ گویا ایسے کلام کی تنزیل ہی بیک وقت کئی ایک امور پر قوی شہادت مہیا کرتی تھا۔ مثلاً یہ کہ (١) اللہ تعالیٰ کی ہستی موجود ہے اور یہ کلام اسی کا ہی ہوسکتا ہے۔ (٢) یہ کہ آپ بلاشبہ اس اللہ کے رسول ہیں اور (٣) ان دونوں باتوں سے لازمی نتیجہ یہ بھی نکلتا تھا کہ جو طرز زندگی آپ پیش فرما رہے ہیں۔ وہی انسانیت کے لئے سیدھی راہ ہوسکتی ہے۔ اس میں نہ افراط ہے اور نہ تفریط۔ (٤) یہ کہ قریش مکہ کے ہر قسم کے شکوک و شبہات لغو اور باطل ہیں۔ جیسے کبھی وہ کہتے تھے کہ اس نے یہ خود ہی گھڑ لیا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اللہ پر جھوٹ باندھ رہا ہے۔ کبھی کہتے تھے کہ اسے کوئی دوسرا آدمی سکھا جاتا ہے وغیرہ وغیرہ۔