إِنَّ اللَّهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا
یقینی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمانوں اور زمین کو تھامے ہوئے ہے کہ وہ ٹل نہ جائیں (١) اور اگر ٹل جائیں تو پھر اللہ کے سوا اور کوئی ان کو تھام بھی نہیں سکتا (٢) وہ حلیم غفور ہے۔ (٣)
[ ٤٦] آسمانوں اور زمین کے الفاظ بول کر قرآن کریم بالعموم اس سے پورا نظام کائنات مراد لیتا ہے اور یہ اس قدر پیچیدہ نظام ہے جو سائنس کے آئے دن کے انکشافات اور ایجادات کے باوجود انسان کے لئے محیر العقول بنا پڑا ہے۔ کہ آیا یہ سب سیارے فضا میں پوری تیزی کے ساتھ گھومنے کے باوجود کس طرح اس قدر جکڑے ہوئے ہیں کہ کوئی سیارہ ایک دوسرے پر گر نہیں پڑتا کہیں ٹکراتا بھی نہیں۔ اس کی رفتار میں بھی فرق نہیں آتا۔ وہ اپنے رخ اور سمت میں تبدیلی نہیں کرسکتا۔ یہ ایسی باتیں ہیں جو انسان کو اس اعتراف پر مجبور کردیتی ہے کہ اس نظام کو بنانے والی، جاری رکھنے والی اور کنٹرول کرنے والی ہستی انتہا درجہ کی دانشور، مدبر اور صاحب اقتدار اور اختیار ہو۔ جس کی حکمت بالغہ کے تحت اس قدر گرانڈیل اور عظیم الجثہ کرے فضائے کائنات میں تیرتے پھرتے ہیں۔ [ ٤٧] وہ ہستی اس قدر صاحب قوت، اقتدار اور اختیار رکھنے کے باوجود بردبار ہے۔ جو اس کے اختیارات کو دوسروں میں بانٹنے والوں کو فوراً تباہ نہیں کردیتا۔ اور اپنے باغیوں، منکروں اور نافرمانوں سے درگزر کئے جاتا ہے۔