سورة سبأ - آیت 54

وَحِيلَ بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ مَا يَشْتَهُونَ كَمَا فُعِلَ بِأَشْيَاعِهِم مِّن قَبْلُ ۚ إِنَّهُمْ كَانُوا فِي شَكٍّ مُّرِيبٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ان کی چاہتوں اور ان کے درمیان پردہ حائل کردیا گیا (١) جیسے کہ اس سے پہلے بھی ان جیسوں کے ساتھ کیا گیا (٢) وہ بھی (انہی کی طرح) شک و تردد میں پڑے ہوئے تھے۔ (٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٧٩] اس وقت ان کی خواہشات کیا ہوں گی۔ یہی کہ ہم ایمان لے آئیں یا ہمیں دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے یا کوئی ایسی صورت بن جائے کہ ہم عذاب سے بچ سکیں یا ہمارے لئے کوئی سفارش کرنے والا یا ہمارا کوئی مددگار ہی اٹھ کھڑا ہو۔ اس دن ان کی اس قسم کی تمام خواہشات کو یوں ختم کرکے انہیں مایوس کردیا جائے گا جیسے ان کی خواہشات کے آگے بند باندھ کر انہیں ان سے یکسر اوجھل کردیا گیا ہے۔ پھر انہیں سوائے عذاب بھگتنے کے کوئی دوسرا خیال بھی نہ آسکے گا۔ [ ٨٠]اشیاع کا لغوی مفہوم :۔ أشیاع شیعہ کی جمع ہے اور شیعہ کے معنی پارٹی یا سیاسی فرقہ ہے۔ جس کی بنیاد عقیدہ کا اختلاف ہو اور شیعہ کی جمع شیعا بھی آتی ہے۔ اور جب اس کی جمع اشیاع آئے تو اس کے معنی ایک ہی جیسی عادات و اطوار رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں خواہ وہ پہلے گزر چکے ہوں یا موجود ہوں۔ اور قریش مکہ کی بنیادی گمراہیاں دو تھیں ایک بت پرستی اور اللہ سے شرک۔ اور اپنے بتوں کو اختیار و تصرف میں اللہ کا شریک سمجھنا دوسرے انکار آخرت۔ اب جو لوگ بھی ان دو قسم کی گمراہیوں میں قریش کے ہمنوا ہوں گے وہ سب قریش کے اشیاع ہیں۔ خواہ وہ قریش سے پہلے گزر چکے ہوں یا بعد میں آئیں۔ اللہ تعالیٰ یہ فرما رہے ہیں کہ اس قسم کے لوگوں کے ان عقائد کی بنیاد علم پر نہیں ہوتی۔ بلکہ محض شکوک و ظنون پر ہوتی ہے۔ وہ یہ کبھی بدلائل ثابت نہیں کرسکتے کہ ان کے معبود فی الواقع اللہ کے اختیارات میں شریک ہیں نہ ہی وہ یہ ثابت کرسکتے ہیں کہ وہ دوبارہ پیدا نہیں کئے جاسکتے یا قیامت نہیں آسکتی۔ وہ خود بھی اس بارے میں ہمیشہ مشکوک ہی رہتے ہیں۔ اور شک بھی ایسا جو انہیں بے چین کئے رکھتا ہے۔ مگر وہ محض اپنے بعض مفادات کی خاطر اپنے ان شکوک کا برملا اظہار نہیں کرتے۔