سورة سبأ - آیت 18

وَجَعَلْنَا بَيْنَهُمْ وَبَيْنَ الْقُرَى الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا قُرًى ظَاهِرَةً وَقَدَّرْنَا فِيهَا السَّيْرَ ۖ سِيرُوا فِيهَا لَيَالِيَ وَأَيَّامًا آمِنِينَ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

ہم نے ان کے اور ان بستیوں کے درمیان جن میں ہم نے برکت دے رکھی تھی چند بستیاں اور (آباد) رکھی تھیں جو سر راہ ظاہر تھیں (١) اور ان میں چلنے کی منزلیں مقرر تھیں (٢) ان میں راتوں اور دنوں کو بھی امن و امان چلتے پھرتے رہو۔ (٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٢٩]تجارتی نظام:۔ ان کی ترقی اور خوشحالی کی دوسری وجہ ان کا تجارتی نظام تھا۔ ان کے تجارتی قافلے اپنے علاقہ (موجودہ یمن) سے لے کر شام تک جاتے تھے اور یہ شام ہی کی سرزمین ہے جسے اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں متعدد مقامات پر ’’ایسی سرزمین جسے ہم نے برکت دے رکھی ہے‘‘ کے الفاظ کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ ان دنوں یہ چار ماہ کا سفر تھا اور اس تجارتی شاہراہ کو اللہ تعالیٰ نے ''امام مبین'' کے الفاظ سے تعبیر فرمایا ہے اسی تجارتی شاہراہ پر قریش کے تجارتی قافلے مکہ سے شام تک سفر کرتے تھے۔ یہ تجارتی شاہراہ اس لحاظ سے تھی کہ برلب سڑک اور نزدیک نزدیک آبادیاں موجود تھیں۔ جہاں مسافروں کو کھانا پانی مل سکتا تھا ایک بستی پر انسان پہنچ جائے تو اگلی بستی سامنے نظر آنے لگتی تھی (اور یہ قریً ظَاھِرَۃً کا مطلب ہے) اس شاہراہ کی بڑی خوبی یہ تھی کہ کوئی شخص جس وقت بھی آرام کرنا چاہتا تو وہ کرسکتا تھا اور آرام کرنے کے لئے اگلی منزل اس کے قریب ہی ہوتی تھی۔ پھر چونکہ اس شاہراہ پر بکثرت آمدروفت رہتی تھی اس لئے لوٹ مار کا بھی اس پر اتنا خطرہ نہیں ہوتا تھا۔ جتنا کہ عرب کے دوسرے علاقوں میں تھا۔ اس لحاظ سے ان کا یہ تجارتی سفر دوسرے علاقوں کی نسبت بہت آسان بھی تھا اور پرامن بھی۔