سورة سبأ - آیت 16

فَأَعْرَضُوا فَأَرْسَلْنَا عَلَيْهِمْ سَيْلَ الْعَرِمِ وَبَدَّلْنَاهُم بِجَنَّتَيْهِمْ جَنَّتَيْنِ ذَوَاتَيْ أُكُلٍ خَمْطٍ وَأَثْلٍ وَشَيْءٍ مِّن سِدْرٍ قَلِيلٍ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

لیکن انہوں نے روگردانی کی تو ہم نے ان پر زور کے سیلاب (کا پانی) بھیج دیا اور ہم ان کے ہرے بھرے باغوں کے بدلے دو (ایسے) باغ دیئے جو بدمزہ میووں والے اور (بکثرت) جھاؤ اور کچھ بیری کے درختوں والے تھے۔ (١)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٢٧] بیراج اورڈیموں کا نظام:۔پھر جب یہ قوم اپنی خوشحالی میں ہی مست ہو کر رہ گئی اور دنیا کے مال و دولت اور اس کی دلفریبیوں میں مستغرق ہو کر اپنے منعم حقیقی کو یکسر بھلا دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء مبعوث فرمائے۔ کہتے ہیں وقتاً فوقتاً ان کی طرف تیرہ انبیاء مبعوث ہوئے تھے۔ لیکن ہر بدمست قوم کی طرف انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ ان کی اس معاشی ترقی اور زرعی ترقی کا اصل سبب تو ہمارا اپنا نظام آب پاشی یا ہماری اپنی ذہانت اور محنت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے انعامات کا کیا دخل ہے۔ تو انہوں نے انبیاء کی دعوت کو رد کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں سنبھلنے کی کافی مہلت دی لیکن انہوں نے اس سے کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا۔ تو آخر ان پر اللہ کی گرفت کا وقت آگیا۔ ان کا سب سے بڑا اور عالیشان بند (ڈیم) مآرب میں تھا جس میں بہت سے لوہے کے دروازے لگے ہوئے تھے۔ جنہیں بوقت ضرورت اٹھا لیا جاتا اور پانی چھوڑ دیا جاتا۔ ان دروازوں کا دوسرا بڑا فائدہ یہ تھا کہ وہ جس طرح چاہتے پانی کا رخ موڑ لیتے اور نہروں کے ذریعہ قابل کاشت زمین کو سیراب کرلیتے تھے۔ سباپرسیلاب کا عذاب:۔ اسی بند میں نیچے رخنے پڑنے شروع ہوگئے اوپر سے اللہ تعالیٰ نے زور دار بارش برسا دی اور پانی اس قدر وافر مقدار میں آجمع ہوا جس نے اس بند کو توڑ پھوڑ دیا۔ اس کے پانی میں اتنی فراوانی اور بہاؤ میں اتنی شدت تھی جس سے باقی بند بھی از خود ٹوٹتے چلے گئے اور یہ سارا قابل کاشت علاقہ زیر آب آگیا۔ جس سے فصلیں اور کھیتیاں سب کچھ گل سڑ کر تباہ و برباد ہوگئیں۔ جب کچھ مدت بعد زمین خشک ہوئی تو پورے آب پاشی کے نظام کی تباہی کے باعث اس سرزمین میں کوئی چیز بھی بار آور نہ ہوسکتی تھی۔ اب وہی سرزمین جو سونا اگلا کرتی تھی اس سرزمین پر جھاڑ جھنکار، خار دار پودے، تھوہر کے درخت اور اسی قبیل کی دوسری چیزیں از خود پیدا ہوگئیں۔ جنہیں اکھاڑے بغیر نئی فصل کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ اور یہ خاصا محنت طلب کام تھا آجا کے اگر کوئی کھانے کی چیز وہاں اگی تو وہ چند بیریوں کے درخت تھے جن سے وہ کسی حد تک اپنا پیٹ بھرسکتے تھے۔ یہ تھا ان کی زرعی ترقی کا حشر جس پر وہ اس قدر پھولے ہوئے تھے۔