لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا
اس کے بعد اور عورتیں آپ کے لئے حلال نہیں اور نہ (درست ہے) کہ ان کے بدلے اور عورتوں سے (نکاح کرے) اگرچہ ان کی صورت اچھی بھی لگتی ہو (١) مگر جو تیری مملوکہ ہوں (٢) اور اللہ تعالیٰ ہر چیز کا (پورا) نگہبان ہے۔
[٨٤] اس آیت کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ آپ کو جن چار قسم کی بیویوں سے نکاح کرلینے کی اجازت دی جاچکی ہے ان کے علاوہ دوسری عورتیں آپ پر حلال نہیں بس یہی کافی ہے۔ اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ آپ کی بیویاں اس بات پر آمادہ ہوگئی ہیں کہ جو آپ کی طرف سے روکھا سوکھا ملے اس بات پر وہ صابر و شاکر رہیں۔ اور باری کا مطالبہ کرکے بھی آپ کو پریشان نہ کریں نہ اسے وجہ نزاع بنائیں تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی یہ جائز نہیں کہ ان صابر و شاکر بیویوں سے کسی کو طلاق دے دیں اور اس کی جگہ کوئی اور لے آئیں۔ خواہ وہ خوبصورت ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کو بھی اب انھیں بیویوں پر صابر و شاکر رہنا چاہئے۔ ضمناً اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ مرد جس عورت سے شادی کرنا چاہے، اسے دیکھنا درست ہے۔ اور احادیث صحیحہ میں اس کی صراحت مذکور ہے۔ [٨٥] کنیزوں کی رخصت کا غلط استعمال :۔ یعنی کنیزوں کی تعداد پر شریعت نے کوئی پابندی عائد نہیں کی۔ کیونکہ ان کا انحصار کسی جنگ میں قیدی عورتوں پر ہوتا ہے۔ اور یہ مستقبل کے حالات ہیں جو کبھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لیکن اس اجازت کا یہ مطلب بھی نہیں کہ نواب اور امیر کبیر حضرات عیش و عشرت کے لئے جتنی کنیزیں چاہیں خرید خرید کر اپنے گھروں اور محلات کے اندر ڈالتے جائیں یہ اس اجازت کا غلط استعمال ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیزیں صرف دو تھیں ایک ماریہ قبطیہ جن کے بطن سے سیدنا ابراہیم علیہ السلام پیدا ہوئے تھے اور دوسری ریحانہ (رضی اللہ عنہما)