وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ ۖ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا ۚ وَكَانَ أَمْرُ اللَّهِ مَفْعُولًا
یاد کرو) جبکہ تو اس شخص سے کہہ رہا تھا کہ جس پر اللہ نے بھی انعام کیا اور تو نے بھی کہ تو اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھ اور اللہ سے ڈر تو نے اپنے دل میں وہ جو چھپائے ہوئے تھا جسے اللہ ظاہر کرنے والا تھا اور تو لوگوں سے خوف کھاتا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ اس کا زیادہ حق دار تھا کہ تو اسے ڈرے (١) پس جب کہ زید نے اس عورت سے اپنی غرض پوری کرلی (٢) ہم نے اسے تیرے نکاح میں دے دیا (٣) تاکہ مسلمانوں پر اپنے لے پالک بیویوں کے بارے میں کسی طرح تنگی نہ رہے جب کہ وہ اپنی غرض ان سے پوری کرلیں (٤) اللہ کا (یہ) حکم تو ہو کر ہی رہنے والا ہے (٥)
[ ٥٦] آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سیدنا زید بن حارثہ پر احسانات :۔ اس شخص سے مراد زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ ہیں۔ ان پر اللہ اور اللہ کے رسول کا احسان یہ تھا کہ آپ قبیلہ کلب کے ایک شخص حارثہ بن شرحبیل کے بیٹے تھے۔ آٹھ سال کے ہی تھے کہ ایک قبائلی جنگ میں گرفتار ہوئے ان حملہ آوروں نے انھیں عکاظ کے میلہ میں جاکر بیچ ڈالا۔ خریدنے والے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے حکیم بن حزام تھے۔ انہوں نے مکہ آکر اس غلام کو اپنی پھوپھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں تحفتاً پیش کردیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ہوا اس وقت زید بن حارثہ ١٥ سال کے تھے۔ ان کی عادات و اطوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر پسند آئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے اپنے لئے مانگ لیا اور انہوں نے آپ کو دے دیا۔ کچھ عرصہ بعد سیدنا زید کے لواحقین کو آپ کا سراغ مل گیا تو سیدنا زید کے والد، چچا اور بھائی تین افراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور عرض کی کہ آپ جتنا زر فدیہ چاہیں لے لیں اور بچے کو ہمارے ساتھ بھیج دیں۔ آپ نے انھیں کہا میں زرفدیہ کچھ نہیں لیتا۔ البتہ تم زید سے پوچھ لو۔ اگر وہ تمہارے ساتھ جانا چاہتا ہے تو مجھے کچھ عذر نہ ہوگا۔ انہوں نے سیدنا زید سے جانے کو کہا تو سیدنا زید نے ہمراہ جانے سے انکار کردیا اور کہا کہ مجھے یہاں والدین سے بڑھ کر پیار اور شفقت میسر ہے۔ چنانچہ سیدنا زید کے لواحقین واپس چلے گئے۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید کو کعبہ میں لے جاکر سب کے سامنے اعلان کردیا کہ میں نے زید کو آزاد کردیا ہے اور اسے اپنا متبنّیٰ بنا لیا ہے۔ لہٰذا یہ میرا وارث ہوگا۔ آپ کے اس اعلان کے بعد لوگ آپ کو زید بن حارثہ کے بجائے زید بن محمد کہنے لگے۔ [ ٥٧] اللہ اور اس کے رسول کے سیدنا زید پر احسانات :۔ سیدنا زید پر اللہ اور اس کے رسول کا دوسرا احسان یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہی قبیلہ سے جو معاشرتی لحاظ سے بہت اونچے درجے کا شریف قبیلہ شمار ہوتا تھا، سیدنا زید کے لئے رشتہ طلب کرلیا۔ لیکن چونکہ سیدنا زید پر سابقہ غلامی کا داغ موجود تھا۔ لہٰذا سیدہ زینب خود اور اس کے اولیاء نے اس رشتہ کے مطالبہ میں ہی اپنی توہین سمجھی تو اللہ نے ان لوگوں کو بذریعہ وحی بتا دیا کہ یہ نبی کی خواہش نہیں بلکہ میرا حکم ہے۔ اس حکم الٰہی کے سامنے ان لوگوں نے سر تسلیم خم کردیا۔ ورنہ یہ رشتہ یا نکاح ہوجانا ناممکن نظر آرہا تھا۔ اللہ کے حکم کے تحت سیدہ زینب سے نکاح تو ہوگیا لیکن معاشرتی تفاوت ذہنوں سے اتنی جلد دور نہ ہوسکا اور نہ ہوسکتا ہے اور سیدہ زینب اپنے شوہر کا وہ احترام نہ کرسکیں جو انھیں کرنا چاہیے تھا۔ اسی لئے سیدنا زید اس بات کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شکوہ کرتے رہے دریں اثناء آپ کو بذریعہ وحی یہ اشارہ مل چکا تھا کہ زینب کا آپ سے نکاح ہوگا اس اشارہ سے کئی باتیں معلوم ہو رہی تھیں۔ ایک یہ کہ سیدنا زید طلاق دیئے بغیر نہ رہیں گے۔ دوسرے یہ کہ سیدہ زینب نے اور ان کے اولیاء نے اللہ کے حکم کے سامنے اپنی خواہش کی جو قربانی کی ہے اس کا صلہ انھیں اس صورت میں ملے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم خود اس سے نکاح کرلیں اور تیسرے یہ کہ معاشرہ میں جو متبنّیٰ سے متعلق غلط باتیں رواج پا گئی ہیں ان کا استیصال کیا جائے۔ [ ٥٨] آپ کونسی بات دل میں چھپاتے تھے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا زید کی شکایت پر ہر بار اسے ہی سمجھاتے رہے کہ جب اس عورت نے اپنی خواہش کی قربانی دے کر تم سے نکاح کرلیا ہے تو آخر تمہیں بھی کچھ برداشت سے کام لینا چاہئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زید کو طلاق سے منع کرنے اور اس طلاق کے معاملہ کو التوا میں ڈالے رکھنے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ بھی تھا کہ جب بھی طلاق واقع ہوگئی تو سیدہ زینب کو مجھے اپنے نکاح میں لانا ہوگا۔ اس وقت مجھے تمام دشمنان اسلام کے طعن وتشنیع کا نشانہ بننا پڑے گا۔ یہ تھی وہ بات جسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم دل میں چھپانا چاہتے تھے۔ جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کوئی آیت چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو ضرور چھپاتے۔ اگرچہ دلوں کے خیالات پر اللہ تعالیٰ مؤاخذہ نہیں فرماتا مگر چونکہ آپ کی عظمت شان کے لحاظ سے دل میں ایسا خیال آنا بھی فروتر تھا۔ اس لئے ایسے خیال پر بھی اللہ کی طرف سے عتاب نازل ہوا۔ [ ٥٩] اس جملہ کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جب اپنی بیوی سے اپنی نفسانی خواہش پوری کرچکا تو طلاق دے دی اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ سیدنا زید کی خواہش ہی یہ تھی کہ اسے طلاق دے دیں۔ چنانچہ انہوں نے طلاق دے دی اور عدت گزر گئی۔ [ ٦٠] اللہ کا حکم ہی زینب کے لئے نکاح کے قائم مقام تھا :۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ نکاح تم نے اپنی مرضی اور اپنی خواہش کے مطابق نہیں کیا تھا بلکہ ہمارے حکم کے مطابق کیا تھا اور دوسرا مطلب یہ ہے کہ یہ نکاح اس دنیا میں ہوا ہی نہیں تھا، بلکہ اللہ کا یہ حکم ہی نکاح کا درجہ رکھتا تھا اور یہی مطلب درج ذیل احادیث کی رو سے راجح معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زید بن حارثہ اپنی بیوی (زینب بنت جحش) کا شکوہ کرنے آتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سے فرماتے تھے: اللہ سے ڈر اور اپنی بیوی کو اپنے پاس ہی رہنے دے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرآن سے کچھ چھپانے والے ہوتے تو اس آیت کو چھپاتے اور سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ بی بی زینب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری بیویوں پر فخر کیا کرتیں کہ تم کو تو تمہارے اولیاء نے بیاہا اور مجھے اللہ تعالیٰ نے سات آسمانوں کے اوپر سے بیاہ دیا۔ (بخاری۔ کتاب التوحید۔ باب قولہ وکان عرشہ علی الماء ) ٢۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سیدہ زینب کی عدت پوری ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید سے کہا کہ زینب سے میرا ذکر کرو۔ زید کہتے ہیں کہ جب میں ان کے پاس آیا تو وہ اپنے آٹے کا خمیر اٹھا رہی تھیں۔ میں ان کی عظمت کی وجہ سے انھیں نظر بھر کر نہ دیکھ سکا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں یاد کیا تھا۔ پھر میں نے ان سے کہا : زینب مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔ وہ آپ کو یاد کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا : میں اس وقت تک کوئی بات نہیں کرتی جب تک اپنے پروردگار سے مشورہ نہ کرلوں (استخارہ نہ کرلوں) پھر وہ اپنی جائے نماز پر کھڑی ہوئیں تو قرآن اترا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بغیر اذن کے ان کے پاس چلے گئے۔ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب زواج زینب بنت جحش) [ ٦١] وہ اللہ کا حکم یہ تھا کہ متبنّیٰ اصل بیٹے کا مقام نہیں رکھتا کہ اس کی مطلقہ بیوی حرام ہوجائے اور اللہ اس غلط رسم کو بہرحال ختم کرنا چاہتا تھا۔