قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ
آپ کہہ دیجئے کہ اے اہل کتاب! ایسی انصاف والی بات کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں برابر ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں نہ اس کے ساتھ کسی کو شریک بنائیں (١) نہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر آپس میں ایک دوسرے کو ہی رب بنائیں (٢) پس اگر وہ منہ پھیر لیں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو مسلمان ہیں (٣)
[٥٧] صلح حدیبیہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف شاہان عجم کی طرف اسلامی دعوت کے خطوط بھیجے۔ جو خط ہرقل شاہ روم کو بھیجا گیا۔ اس میں اسلام کی طرف دعوت کے بعد یہی آیت درج تھی۔ ان دنوں ابو سفیان اپنے چند ساتھیوں سمیت شام گیا ہوا تھا۔ اسے اور اس کے ساتھیوں کو ہرقل نے دربار میں بلا کر پیغمبر اسلام کے متعلق بہت سے سوال و جواب کئے۔ تاآنکہ اسے پیغمبر اسلام کی حقانیت کا یقین ہوگیا۔ پھر اس نے روسائے مملکت کو ایک بند کمرے میں بلا کر کہا کہ اگر مسلمان ہوجاؤ تو ہدایت پاجاؤ گے اور تمہارا ملک بھی تمہارے ہی پاس رہے گا مگر وہ لوگ اس دعوت پر تلملا اٹھے اور باہر بھاگنا چاہا۔ ہرقل نے انہیں دوبارہ بلا کرکہا میں صرف تمہاری آزمائش کر رہا تھا کہ تم اپنے دین میں کتنے پختہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے ہرقل کو سجدہ کیا اور اس سے خوش ہوگئے۔ (طویل حدیث کا خلاصہ) (بخاری، کتاب التفسیر، زیر آیت ( یاھل الکتاب تعالوا) ہرقل اورابوسفیان کامکالمہ :۔ مندرجہ بالا حدیث میں جن سوالات کا ذکر ہے۔ ان میں سے ایک سوال ہرقل نے یہ بھی کیا تھا کہ آیا ’’تمہارے اور اس نبی کے درمیان کبھی جنگ بھی ہوئی؟‘‘ تو اس کا جواب ابو سفیان نے یہ دیا کہ ہاں ہوئی۔ پھر ہرقل نے پوچھا، اس جنگ کا نتیجہ کیا رہا ؟ تو ابو سفیان نے جواب دیا کہ : الحرب سجال یعنی لڑائی تو ڈولوں کی طرح ہے کبھی ایک فریق کی فتح کبھی دوسرے کی اور یہی وہ جملہ ہے جو ابو سفیان نے جنگ احد کے اختتام پر کہا تھا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیات جنگ احد کے بعد نازل ہوئی تھیں۔ نیز اس حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ ہرقل بالکل صحیح نتیجہ پر پہنچ گیا تھا۔ مگر اس کے درباریوں کے سامنے اس کی کوئی پیش نہ گئی اور اتنی جرات ایمانی اس میں نہ تھی کہ وہ سلطنت کو چھوڑ کر مسلمان ہوجاتا، اور یہی نتیجہ جس پر ہرقل پہنچا تھا۔ کلمۃ سواء ہے جس کا اللہ نے یہاں ذکر فرمایا ہے اور یہ ہر الہامی کتاب میں پایا جاتا ہے۔ بعد میں لوگ اس کلمۃ سواء یا کلمہ توحید میں کئی طرح کی آمیزش کرلیتے ہیں۔ جیسا کہ عیسائیوں نے بعد میں الوہیت مسیح اور عقیدہ تثلیث وغیرہ ایجاد کرلیے تھے۔