سورة الأحزاب - آیت 23

مِّنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللَّهَ عَلَيْهِ ۖ فَمِنْهُم مَّن قَضَىٰ نَحْبَهُ وَمِنْهُم مَّن يَنتَظِرُ ۖ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

مومنوں میں (ایسے) لوگ بھی ہیں جنہوں نے جو عہد اللہ تعالیٰ سے کیا تھا انھیں سچا کر دکھایا (١) بعض نے تو اپنا عہد پورا کر (٢) دیا اور بعض (موقعہ کے) منتظر ہیں اور انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ (٣)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[ ٣٢] اس عہد سے مراد وہ عہد ہے جو لیلۃ العقبہ ثانیہ میں انصار کے بہتر (٧٢) افراد نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا اور وہ عہد یہ تھا کہ ہم مرتے دم تک آپ کا ساتھ دیں گے۔ [ ٣٣] اللہ سے کئے ہوئے عہد کو نباہنے والے :۔ اس سلسلہ میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : (١) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ’’میں سمجھتا ہوں کہ یہ آیت (میرے چچا) انس بن نضر کے حق میں نازل ہوئی ہے‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) (٢) سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا نام میرے چچا انس بن نضر کے نام پر رکھا گیا تھا۔ وہ جنگ بدر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر نہ ہوسکے اور یہ بات ان پر بہت شاق گزری اور کہا کہ : ’’ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر رہنے کا پہلا موقع تھا جس سے میں غائب رہا۔ اللہ کی قسم! اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہونے کا کوئی موقع آیا تو اللہ تعالیٰ خود دیکھ لے گا کہ میں کیا کچھ کرتا ہوں‘‘ راوی کہتا ہے کہ : پھر وہ ڈر گئے کہ ان الفاظ کے علاوہ کچھ اور لفظ کہنا مناسب تھا۔ پھر جب اگلے سال احد کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حاضر ہوئے تو انھیں (راہ میں) سعد بن معاذ ملے۔ انہوں نے پوچھا : ’’ابوعمرو! کہاں جاتے ہو؟‘‘ انس کہنے لگے : واہ میں تو احد (پہاڑ) کے پار جنت کی خوشبو پا رہا ہوں۔ چنانچہ وہ (بڑی جرأت سے) لڑے۔ حتیٰ کہ شہید ہوگئے اور ان کے جسم پر ضربوں، نیزوں اور تیروں کے اسی (٨٠) سے زیادہ زخم پائے گئے۔ میری پھوپھی ربیع بنت نضر کہنے لگی: میں اپنے بھائی کی نعش کو صرف اس کے پوروں سے پہچان سکی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) (٣) موسیٰ بن طلحہ کہتے ہیں کہ : جب میں معاویہ کے ہاں گیا تو انہوں نے کہا : میں تمہیں ایک خوشخبری نہ سناؤں؟ میں نے کہا : ضرور سناؤ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے سنا ہے کہ طلحہ ان لوگوں میں سے تھے جو اپنی ذمہ داریاں پوری کرچکے۔ (ترمذی۔ حوالہ ایضاً) یہ وہ بزرگ ہیں جو جنگ احد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کے لئے اپنے ہاتھ پر تیر روکتے رہے حتیٰ کہ ایک ہاتھ شل ہوگیا تو دوسرا ہاتھ آگے کردیا تھا۔ (بخاری۔ کتاب المناقب۔ باب ذکر طلحہ بن عبید اللہ)