وَإِذْ قَالَت طَّائِفَةٌ مِّنْهُمْ يَا أَهْلَ يَثْرِبَ لَا مُقَامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا ۚ وَيَسْتَأْذِنُ فَرِيقٌ مِّنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنَا عَوْرَةٌ وَمَا هِيَ بِعَوْرَةٍ ۖ إِن يُرِيدُونَ إِلَّا فِرَارًا
ان ہی کی ایک جماعت نے ہانک لگائی کہ اے مدینہ والو تمہارے لئے ٹھکانا نہیں چلو لوٹ چلو (١) اور ان کی ایک جماعت یہ کہہ کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اجازت مانگنے لگی ہمارے گھر غیر محفوظ ہیں (٢) حالانکہ وہ (کھلے ہوئے اور) غیر محفوظ نہ تھے (لیکن) ان کا پختہ ارادہ بھاگ کھڑے ہونے کا تھا (٣)۔
[ ١٦] یہ مدینہ کا پہلا نام ہے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو یہ مدینۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کے بعد المدینہ کے نام سے دنیا بھر میں مشہور و معروف ہوگیا۔ [ ١٧] اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ یہ پریشان کن صورت حال دیکھ کر منافقین اپنے ساتھیوں کو یہ دعوت دینے لگے کہ محاذ جنگ چھوڑ کر اپنے گھروں کو واپس لوٹ آؤ اور دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان کی دعوت یہ تھی کہ اسلام کو چھوڑ کر پھر سے اپنے پہلے دین کی طرف واپس آجاؤ۔ اسی میں تمہاری عافیت اور خیریت ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر اتحادیوں سے مل جاؤ۔ [ ١٨] منافقوں کا گھروں کی حفاظت کا بہانہ :۔ اکثر منافق جنگ میں شمولیت سے فرار کے لئے مختلف بہانے سوچ رہے تھے۔ عام بہانہ یہ تھا کہ ان کے گھر دشمن کے سامنے کھلے پڑے ہیں۔ لہٰذا ان کی حفاظت کے لئے انھیں واپس چلے جانے کی اجازت دی جائے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی نرمی طبع کی بنا پر ایسے لوگوں کو اجازت دیتے رہے۔ یا شاید آپ اسی میں بہتری سمجھتے ہوں کہ ایسے لوگ مسلمانوں کے لشکر میں رہ کر بگاڑ ہی پیدا کریں گے۔ یہاں صرف یہ بتانا مقصود ہے کہ ان کا یہ عذر بھی محض ایک جھوٹا بہانہ تھا۔ کیونکہ مسلمان مدینہ کی اور مدینہ کے گھروں کی پوری حفاظت کا انتظام کرکے محاذ جنگ پر نکلتے تھے۔