يُدَبِّرُ الْأَمْرَ مِنَ السَّمَاءِ إِلَى الْأَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ إِلَيْهِ فِي يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهُ أَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ
وہ آسمان سے لے کر زمین تک (ہر) کام کی تدبیر کرتا ہے (١) پھر (وہ کام) ایک ایسے دن میں اس کی طرف چڑھ جاتا ہے جس کا اندازہ تمہاری گنتی کے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔ (٢)
[ ٦] اللہ تعالیٰ ہزار سالہ پروگرام مدبرات امرکےحوالہ کردیتاہے جس میں کسی قوم پرعذاب بھی شامل ہے:۔ اس کے تخلیقی کارناموں کی صورت یہ ہوتی ہے کہ وہ ایک کام کا ارادہ کرتا ہے یا اس کی اسکیم بناتا ہے تو تدبیر امور پر مامور فرشتوں کو اس کی خبر دیتا ہے۔ جو اللہ کے حکم کے مطابق نیچے اترتے ہیں۔ تمام اسباب ظاہری و باطنی خواہ زمین سے متعلق ہوں یا آسمان سے سب کے سب خود بخود جمع ہو کر اس کام کی تکمیل کے احترام میں لگ جاتے ہیں۔ اور ایک دن میں جب یہ کام پایہ تکمیل کو پہنچ جاتا ہے تو فرشتے اللہ کے حضور حاضر ہو کر اس کی روداد پیش کردیتے ہیں۔ اور یہ ایک دن اہل دنیا کے حساب کے مطابق ایک ہزار سال کی مدت ہوتی ہے۔ گویا فرشتوں کو ایک ہزار سالہ پروگرام اللہ تعالیٰ دے دیتے ہیں۔ جب سب کام سرانجام پاچکتا ہے تو پھر اگلا ایک ہزارسالہ پروگرام مدبرات امر فرشتوں کے حوالہ کردیا جاتا ہے۔ اسی آیت میں دراصل ان مشرکوں کے اس اعتراض کا جواب دیا جارہا ہے جو اس بات پر مصر تھے اور نبیوں سے کہتے رہتے تھے کہ جس عذاب کی تم دھمکی دیتے ہو وہ آکیوں نہیں جاتا ؟ یا تم اسے ابھی ہم پر لے کیوں نہیں آتے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس ہزار سالہ پروگرام میں کسی قوم پر عذاب آنے کا پروگرام بھی شامل ہوتا ہے۔ اور وہ پروگرام کے مطابق اپنے وقت مقررہ پر ہی آتا ہے اس میں تقدیم و تاخیر نہیں ہوتی اور نہ ہی یہ ممکن ہے کہ جو عذاب کسی قوم کے مقدر ہوچکا ہے وہ اس پر نہ آئے۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے سارے کام سوچے سمجھے پروگرام کے مطابق بروئے کار لاتا ہے۔ تمہارے جلدی مچانے یا نہ مچانے کیا کچھ فائدہ یا اثر نہیں ہوگا۔