سورة لقمان - آیت 17

يَا بُنَيَّ أَقِمِ الصَّلَاةَ وَأْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنِ الْمُنكَرِ وَاصْبِرْ عَلَىٰ مَا أَصَابَكَ ۖ إِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ الْأُمُورِ

ترجمہ مکہ - مولانا جوناگڑھی صاحب

اے میرے پیارے بیٹے! تو نماز قائم رکھنا اچھے کاموں کی نصیحت کرتے رہنا، برے کاموں سے منع کیا کرنا اور جو مصیبت تم پر آئے صبر کرنا (١) (یقین مان) کہ یہ بڑے تاکیدی کاموں میں سے ہے (٢)

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

سیدنالقمان کی اپنے بیٹے کو دوسری نصیحتیں:۔ [٢٣] مصائب برداشت کرنا پیغمبروں کی میراث ہے:۔ یعنی نماز کی ہمیشگی کے ساتھ باجماعت ادا کرتے رہنا یہ کوئی معمولی کام نہیں بلکہ یہ باہمت لوگوں کا کام ہے۔ اسی طرح اچھے کاموں کا حکم دینا اور لوگوں کو برے کاموں سے روکتے رہنا بھی عام لوگوں کے بس کی بات نہیں بلکہ یہ بھی صاحب عزم لوگ ہی کرسکتے ہیں۔ اس سے یہ بھی از خود معلوم ہوتا ہے کہ جو لوگ دوسروں کو اچھے کاموں کا حکم دیں اور برے کاموں سے رکنے کا فریضہ سرانجام دیں انھیں لامحالہ لوگوں کی طرف سے ایذائیں پہنچیں گی۔ کیونکہ یہ پیغمبروں کا اسوہ ہے اور اسی لئے پیغمبروں کو لوگ ستاتے اور دکھ پہنچاتے تھے۔ اسی لئے ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ اس راہ میں اگر مجھے دکھ اور ایذا پہنچے تو اسے خندہ پیشانی سے برداشت کر اور یہ کہ مصائب پر صبر کرنا بھی کوئی معمولی کام نہیں۔ صاحب عزم و ہمت ہی یہ تینوں کام بجا لاسکتے ہیں۔