وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ حَمَلَتْهُ أُمُّهُ وَهْنًا عَلَىٰ وَهْنٍ وَفِصَالُهُ فِي عَامَيْنِ أَنِ اشْكُرْ لِي وَلِوَالِدَيْكَ إِلَيَّ الْمَصِيرُ
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی (١) ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر (٢) اسے حمل میں رکھا اور اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے (٣) کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔
[١٦] آیت نمبر ١٤ اور ١٥ لقمان کی نصائح کے درمیان اللہ تعالیٰ کی طرف سے جملہ معترضہ کے طور پر بیان ہوئی ہیں۔ کیونکہ ان آیات کا بھی بالواسطہ شرک کی مذمت ہی سے تعلق ہے۔ [ ١٧] اللہ تعالیٰ نے کئی مقامات پر اپنے حق کے ساتھ والدین سے بہتر سلوک کا ذکر فرمایا ہے اس کی وجہ اور تشریح کے لئے دیکھئے سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر ٢٣ اور ٢٤ کے حواشی نیز درج ذیل حدیث بھی والدین کی اطاعت کی اہمیت پر پوری روشنی ڈالتی ہے : حدیث جریج:۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تین بچوں کے سوا کسی نے مہد میں کلام نہیں کیا۔ عیسیٰ بن مریم اور صاحب جریج۔ جریج ایک عابد تھا۔ جس نے ایک عبادت خانہ بنا رکھا تھا ایک دن اس کی ماں آئی اور وہ نماز پڑھ رہا تھا۔ ماں نے کہا : اے جریج! اس نے دل میں کہا یا اللہ! ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز۔ وہ نماز میں لگا رہا۔ حتیٰ کہ اس کی ماں واپس چلی گئی۔ دوسرے دن پھر اس کی ماں آئی اور پکارا اے جریج! اس نے دل میں کہا : یا اللہ! ایک طرف ماں ہے اور ایک طرف نماز، آخر وہ نماز میں ہی لگا رہا۔ (اب اس کی ماں کے منہ سے بددعا نکل گئی) کہنے لگی ’’یا اللہ اسے موت نہ دینا جب تک یہ کسی بدکار عورت کا منہ نہ دیکھ لے‘‘ بنی اسرائیل میں جریج اور اس کی عبادت کا چرچا ہونے لگا۔ ان میں ایک بدکار عورت تھی جس کی خوبصورتی کی مثال دی جاتی تھی۔ وہ کہنے لگی : ’’اگر تم چاہتے ہو تو میں اسے پھنساؤں؟‘‘ چنانچہ اس نے اپنے آپ کو جریج پر پیش کیا لیکن وہ اس کی طرف متوجہ نہ ہوا۔ پھر وہ ایک چرواہے کے پاس گئی جو اس کے عبادت خانہ کے پاس ٹھہرا کرتا تھا اور اس نے اپنے آپ کو اس کے حوالہ کردیا۔ چنانچہ چرواہے نے اس سے صحبت کی تو وہ حاملہ ہوگئی۔ پھر جب بچہ پیدا ہوا تو کہنے لگی ’’یہ جریج کا بچہ ہے‘‘ لوگ آئے۔ اسے عبادت خانہ سے نکالا اور اسے گرا دیا اور اس کی پٹائی کرنے لگے۔ جریج نے پوچھا : ’’کوئی بات تو بتلاؤ؟‘‘ وہ کہنے لگے : تو نے اس فاحشہ سے زنا کیا اور اب تو اس کے بچہ بھی پیدا ہوچکا ہے جریج نے کہا : ’’وہ بچہ کہاں ہے؟‘‘ لوگ بچہ لے آئے تو جریج نے کہا : ذرا ٹھہر! میں نماز پڑھ لوں۔ پھر وہ نماز سے فارغ ہو کر بچہ کے پاس آیا۔ اس کے پیٹ میں کچو کا دیا اور کہا : بچے! بتلاؤ! تمہارا باپ کون ہے؟ بچہ بول اٹھا : فلاں چرواہا ہے۔ پھر تو لوگ جریج کے پاس آکر اسے بوسے دینے لگے اور کہنے لگے کہ ہم تمہارے لئے سونے کا عبادت خانہ بنا دیتے ہیں۔ جریج نے کہا : نہیں بس ایسا ہی مٹی کا بنا دو۔ چنانچہ انہوں نے عبادت خانہ بنایا۔ تیسرے بنی اسرائیل میں ایک عورت جو اپنے بچے کو دودھ پلا رہی تھی ادھر سے ایک نہایت خوش وضع سوار گزرا وہ عورت اس سوار کو دیکھ کر کہنے لگی : ’’یا اللہ! میرے بچے کو اس سوار جیسا بنا دے‘‘ بچے نے ماں کی چھاتی چھوڑ کر کہا : ’’یا اللہ! مجھے ایسا نہ بنانا‘‘ پھر وہ دودھ پینے لگا۔ پھر وہاں سے ایک لونڈی گزری (جسے لوگ مارتے جاتے تھے) وہ عورت کہنے لگی ’’یا اللہ میرے بیٹے کو ایسا نہ بنانا‘‘ بچے نے چھاتی چھوڑ دی اور بول اٹھا! یا اللہ مجھے ایسا ہی بنانا۔ میں نے اپنے بچے سے کہا کہ تو ایسا کیوں کہتا ہے؟ بچے نے کہا : وہ سوار تو ظالم لوگوں سے تعلق رکھتا ہے اور ظالم ہے اور اس لونڈی کے متعلق لوگ کہتے ہیں کہ اس نے چوری کی اور زنا کیا۔ حالانکہ اس نے کچھ بھی نہیں کیا۔ (مسلم۔ کتاب البروالصلۃ باب تقدیم برا الوالدین علی التطوع بالصلوٰۃ وغیرھا بخاری۔ بخاری۔ کتاب الانبياء۔ باب واذکر فی الکتب مریم) یہ حدیث، حدیث جریج کے نام سے مشہور ہے اور اس سے علماء نے یہ مسئلہ استنباط کیا ہے کہ اگر اولاد نفلی نماز میں مشغول ہو اور والدین میں سے کوئی اسے پکارے تو اسے نماز توڑ کر بھی اس آواز پر لبیک کہنا چاہئے۔ اور ان کا حکم بجا لانا چاہئے۔ [ ١٨] رضاعت کی مدت:۔اس آیت سے نیز سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢٣٣ سے صرا حتاً یہ معلوم ہوتا ہے کہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت دو سال ہے۔ اس مدت میں کمی تو ہوسکتی ہے اگر والدین کسی ضرورت کے تحت دو سال سے پہلے دودھ چھڑانا چاہیں تو چھڑا سکتے ہیں۔ لیکن اس مدت میں بیشی نہیں ہوسکتی۔ نیز سورۃ احقاف کی آیت نمبر ١٥ میں فرمایا کہ حمل اور دودھ چھڑانے کی مدت تیس ماہ ہے اس میں بھی علماء نے رضاعت کی مدت دو سال شمار کرکے حمل کی مدت میں کمی کے امکان یعنی چھ ماہ کو بھی ممکن قرار دیا ہے۔ لیکن ان سب تصریحات کے باوجود امام ابو حنیفہ رضاعت کی زیادہ سے زیادہ مدت اڑھائی سال قرار دیتے ہیں۔ اور وہ اپنی اس رائے میں منفرد ہیں اور کسی فقہ کے امام نے بھی ان کی تائید نہیں کی۔ اور اس مسئلہ کی اہمیت یہ ہے کہ حرمت نکاح کا فیصلہ اسی مدت کی صحیح تعیین کی بناء پر ہی کیا جاسکتا ہے۔