اللَّهُ الَّذِي يُرْسِلُ الرِّيَاحَ فَتُثِيرُ سَحَابًا فَيَبْسُطُهُ فِي السَّمَاءِ كَيْفَ يَشَاءُ وَيَجْعَلُهُ كِسَفًا فَتَرَى الْوَدْقَ يَخْرُجُ مِنْ خِلَالِهِ ۖ فَإِذَا أَصَابَ بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ إِذَا هُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
اللہ تعالیٰ ہوائیں چلاتا ہے وہ ابر کو اٹھاتی ہیں (١) پھر اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اسے آسمان میں پھیلا دیتا ہے (٢) اور اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیتا ہے (٣) پھر آپ دیکھتے ہیں اس کے اندر سے قطرے نکلتے ہیں (٤) اور جنہیں اللہ چاہتا ہے ان بندوں پر وہ پانی برساتا ہے تو وہ خوش خوش ہوجاتے ہیں۔
[٥٦] بارش برسنےکےعمل میں اللہ کی قدرتیں اور حکمتیں :۔اس ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی کئی نشانیاں فرما دیں مثلاً ہوا جو ایک کنکر کا بوجھ بھی برداشت نہیں کرسکتی اور کنکر زمین پر آپڑتا ہے مگر یہ ہوا آبی بخارات کو ایک کاغذ کے پرزے کی طرح اپنے دوش پر اٹھائے پھرتی ہیں۔ وہ آبی بخارات جن میں کروڑوں ٹن پانی موجود ہوتا ہے۔ اور اس وزن کا اندازہ زمین کے اس رقبہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں یہ بارش ہوئی اور جتنے انچ بارش ہوئی۔ دوسری یہ کہ ان باربردار ہواؤں کا رخ طبیعی طور پر متعین نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ جس طرح خود چاہے اسی طرح ہی موڑ دیتا ہے اس لئے جہاں چاہتا ہے وہیں بارش ہوتی ہے دوسرے علاقہ میں نہیں ہوتی۔ تیسری یہ کہ جب یہ بادل کسی ایسے ٹھنڈے فضائی علاقے میں پہنچتے ہیں جو آبی بخارات کو پھر سے پانی میں منتقل کرسکیں تو وہاں بھی بادلوں کا سارا پانی یک لخت پانی بن کر زمین پر نہیں گر پڑتا، بلکہ قطرہ قطرہ بن کر گرتا ہے۔ حتیٰ کہ اگر برودت زیادہ ہو تو بھی وہ قطرے ہی اولے بن کر گرتے ہیں۔ یہ نہیں ہوتا کہ زیادہ سردی کی وجہ سے یک لخت سارا پانی بن کر یک ہی دفعہ کسی جگہ پر گر پڑے۔ اور اس میں اللہ کی بہت سی حکمتیں ہیں۔ بارش کےخوشگوار نتائج :۔ بارش سے پہلے زمین کا یہ حال تھا کہ دھول اڑتی پھرتی تھی۔ درختوں کے پتوں پر گردوغبار پڑا تھا۔ بارش ہوتی ہے۔ تو درخت دھل جاتے ہیں۔ زمین لہلہانے لگتی ہے۔ گویا اسے نئی زندگی مل گئی۔ پھر کئی قسم کے جاندار بھی بارش میں پیدا ہو کر بولنے اور چلنے پھرنے لگتے ہیں۔ ایک بہار آجاتی ہے جس سے دل مسرور ہوجاتے ہیں اور ساتھ ہی تمام مخلوق کی روزی کا سامان بھی میسر آنے لگتا ہے۔ اور انسان جو برسات سے پیشتر مایوسی کا شکار ہو رہا تھا۔ پھر سے خوش ہو کر پھولنے اور اترانے لگتا ہے۔